فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ
چنانچہ ہم نے لوط اور اس کے اہل خانہ کو بچا لیا بجز اس کی بیوی کے کہ وہ باقی ماندہ [٨٨] ہلاک ہونے والوں سے تھی
لوطی تباہ ہو گئے لوط علیہ السلام اور ان کا گھرانا اللہ کے ان عذابوں سے بچ گیا جو لوطیوں پر نازل ہوئے ۔ بجز آپ کے گھرانے کے اور کوئی آپ پر ایمان نہ لایا ۔ جیسے فرمان رب ہے «فَأَخْرَجْنَا مَن کَانَ فِیہَا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ فَمَا وَجَدْنَا فِیہَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِینَ» ۱؎ (51-الذاریات:35-36) یعنی ’ وہاں جتنے مومن تھے ، ہم نے سب کو نکال دیا لیکن بجز ایک گھر والوں کے ، وہاں ہم نے کسی مسلمان کو پایا ہی نہیں ۔ ‘ بلکہ خاندان لوط میں سے بھی خود لوط علیہ السلام کی بیوی ہلاک ہوئی کیونکہ یہ بد نصیب کافرہ ہی تھی بلکہ قوم کے کافروں کی طرف دار تھی ۔ اگر کوئی مہمان آتا تو اشاروں سے قوم کو خبر پہنچا دیتی ۔ اسی لیے لوط علیہ السلام سے کہہ دیا گیا تھا کہ اسے اپنے ساتھ نہ لے جانا بلکہ اسے خبر بھی نہ کرنا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ساتھ تو چلی لیکن جب قوم پر عذاب آیا تو اس کے دل میں ان کی محبت آ گئی اور رحم کی نگاہ سے انہیں دیکھنے لگی ۔ وہیں اسی وقت وہی عذاب اس بد نصیب پر بھی آ گیا لیکن زیادہ قوی پہلا ہی ہے یعنی نہ اسے لوط علیہ السلام نے عذاب کی خبر کی ، نہ اسے اپنے ساتھ لے گئے ۔ یہ یہیں باقی رہ گئی اور پھر ہلاک ہو گئی ۔ «غابرین» کے معنی بھی باقی رہ جانے والے ہیں ۔ جن بزرگوں نے اس کے معنی ہلاک ہونے والے کے کئے ہیں ، وہ بطور لزوم کے ہیں ۔ کیونکہ جو باقی تھے ، وہ ہلاک ہونے والے ہی تھے ۔ لوط علیہ السلام اور ان کے مسلمان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شہر سے نکلتے ہی عذاب الٰہی ان پر بارش کی طرح برس پڑا ۔ وہ بارش پتھروں اور ڈھیلوں کی تھی جو ہر ایک پر بالخصوص نشان زدہ اسی کے لئے آسمان سے اتر رہے تھے ۔ گو اللہ کے عذاب کو بےانصاف لوگ دور سمجھ رہے ہوں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ خود دیکھ لیجئے کہ اللہ کی نافرمایوں اور رسول کی تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے ؟ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” لوطی فعل کرنے والے کو اونچی دیوار سے گرا دیا جائے ، پھر اوپر سے پتھراؤ کر کے اسے مار ڈالنا چاہیئے ۔ کیونکہ لوطیوں کو اللہ کی طرف سے یہی سزا دی گئی ۔ “ اور علماء کرام کا فرمان ہے کہ ” اسے رجم کر دیا جائے خواہ وہ شادی شدہ ہو یا بےشادی شدہ ہو ۔ “ امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قول میں سے ایک یہی ہے ۔ اس کی دلیل مسند احمد ، ابوداؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم لوطی فعل کرتے پاؤ ، اسے اور اس کے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4462،قال الشیخ الألبانی:صحیح) علماء کی ایک جماعت کا قول ہے : ” یہ بھی مثل زناکاری کے ہے ۔ شادی شدہ ہوں تو رجم ورنہ سو کوڑے ۔ “ امام شافعی رحمہ اللہ کا دوسرا قول بھی یہی ہے ۔ عورتوں سے اس قسم کی حرکت کرنا بھی چھوٹی لواطت ہے اور بہ اجماع امت حرام ہے ۔ بجز ایک شاذ قول کے اور بہت سی احادیث میں اس کی حرمت موجود ہے ۔ اس کا پورا بیان سورۃ البقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے ۔