فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ
ایک فریق کو تو اس نے ہدایت کی اور دوسرے فریق پر گمراہی واجب [٢٨] ہوگئی۔ کیونکہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو اپنا سرپرست بنا لیا تھا پھر وہ یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ وہی سیدھی راہ پر ہیں
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو خالص اپنی عبادت کا حکم دیا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں جو سراسر گمراہی ہے۔ سورۃ البقرۃ آیت 256، 257 میں واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو گمراہی سے الگ اور ممتاز کردیا ہے جو شخص طاغوت کا انکار کرے اور اللہ تعالیٰ پرسچا ایمان لائے۔ درحقیقت اس نے ایسی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا ہے جس کا ٹوٹنا ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان وایقان اور علم کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔ کافر اپنے ساتھیوں کو ایمان کی روشنی سے نکال کر کفرو شرک کی تاریکیوں میں دھکیلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہدایت پر صاحب ایمان لوگ رہنمائی پاتے ہیں اور دوسروں پر گمراہی مسلط ہوجاتی ہے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے بجائے شیطان کو اپنا ساتھی اور خیر خواہ بنایا ہوتا ہے۔ جو انسان کا کھلم کھلا دشمن ہے۔ دشمن کو خیر خواہ سمجھنے والا کبھی خیر نہیں پاسکتا۔ ایسے لوگوں کی بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ وہ سراسر گمراہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ہدایت یافتہ تصور کرتے ہیں۔ یہی کچھ شیطان نے کہا تھا کہ میرا مؤقف ٹھیک ہے کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُول اللّٰہُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دینِکَ) [ رواہ ابن ماجہ : کتاب الدعاء، باب دعاء رسول اللّٰہ (ﷺ) ] ” حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں رسول معظم (ﷺ) اکثر فرمایا کرتے تھے اے اللہ میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھنا۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان لانے والے ہرقدم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی پاتے ہیں۔ 2۔ شیطان کی سنگت اختیار کرنے والوں پر گمراہی مسلط ہوجاتی ہے۔ 3۔ شیطان کے ساتھی گمراہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ہدایت یافتہ تصور کرتے ہیں۔