فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ
پھر شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا۔ تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں، انہیں کے سامنے کھول دے اور کہنے لگا:’’تمہیں تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لئے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ یہاں رہنے والے نہ بن جاؤ‘‘
فہم القرآن : (آیت 20 سے22) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اسی سورۃ کی آیت 189میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت حواکو آدم (علیہ السلام) سے ہی پیدا فرمایا۔ یہاں اس بات کا ذکر ہے کہ آدم اور اس کی بیوی کو جنت میں رہنے کا حکم ہوا۔ اور ساتھ یہ بات بتلادی گئی کہ صرف اس ایک درخت کے سوا باقی ہر چیز کھا سکتے ہو۔ اس کے قریب گئے تو ظالموں میں شمار کیے جاؤ گے۔ لیکن شیطان نے انتقام لینے اور ان کو برہنہ کرنے کے لیے ان کے دل میں وسوسہ پیدا کرکے انہیں باور کرایا کہ تمہیں اس درخت سے محض اس لیے روکا گیا ہے کہیں تم فرشتے بن کر ہمیشہ کے لیے جنت کے باسی نہ بن جاؤ۔ نامعلوم شیطان لعین ان کو پھسلانے کی کتنی مدت کوشش کرتا رہا جب اس نے دیکھا کہ یہ دونوں میرے جال میں نہیں پھنس رہے تو اس نے اللہ کی قسمیں اٹھائیں کہ میں تمھیں دشمنی کی بناء پر نہیں بلکہ خیر خواہی کے جذبہ سے مشورہ دے رہا ہوں کہ تمھیں اس درخت کا ذائقہ ضرور چکھنا چاہیے۔ چنانچہ آدم (علیہ السلام) اور ان کی رفیقۂ حیات نے شیطان کی قسموں پر اعتبار کرتے ہوئے اس درخت کا ذائقہ چکھ لیا۔ جونہی انہوں نے درخت کا ذائقہ چکھا تو ان کے لباس اتر گئے اور وہ شرم کے مارے جنت کے پتوں سے اپنی شرم گاہوں کو ڈھانپنے کی کوشش کر رہے تھے اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو آواز دی کیا میں نے تمہیں اس سے پہلے منع نہیں کیا تھا کہ تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا اور میں نے یہ بھی تمہیں سمجھایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس سے بچ کر رہنا لیکن تم نے وہ کیا جس سے تمہیں روکا گیا تھا۔ ” وسوسہ“ کا معنیٰ ہے کہ کسی کے دل میں برا خیال ڈالنا یا اس کے کان میں سرگوشی کے انداز میں بری بات کہنا بعض مفسر یہاں اس الجھن کا شکار ہوئے ہیں کہ شیطان کو جنت میں جانے کی اجازت نہ تھی تو پھر اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی کے دل میں کس طرح وسوسہ ڈالا۔ اس الجھن سے نکلنے کے لیے اسرائیلی روایات کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ شیطان سانپ کی شکل میں جنت میں داخل ہوا۔ کچھ مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) جنت کے دروازے کے قریب آئے تو شیطان ان کو ورغلانے میں کامیاب ہوا یہ تفسیر لکھنے والے اگر حدیث رسول (ﷺ) کی طرف رجوع کرتے تو انہیں ان مضحکہ خیز تاویلات کی ضرورت پیش نہ آتی۔ شیطان کی قوت وحرکت کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا کہ شیطان دور کھڑا ہو کر بھی انسان پر اثرا نداز ہوتا ہے اور کبھی خون کی گردش کی طرح انسان کے جسم میں سرایت کرجاتا ہے۔ جہاں تک دور کھڑے ہو کر اثر انداز ہونے کا تعلق ہے ٹی وی کے فحش پروگرام اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بعض اہل علم نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) تو مسجود ملائکہ ہونے کی وجہ سے افضل المقام تھے پھر انہیں فرشتہ یا اس کا ہم پلہ ہونے کا کس طرح خیال آیا؟ اس کے ساتھ ہی وہ اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو جنت میں رہنے کا حکم دیا تھا تو پھر انہیں کس طرح خدشہ پیدا ہوا کہ وہ یہاں سے نکال دیے جائیں گے؟ مذکورہ بالا خیالات کی توجیہ کے لیے بھی کئی راستے نکالے گئے ہیں۔ شاید کچھ مفسرین نے قرآن کے الفاظ پر غور نہیں فرمایا ورنہ قرآن مجید نے اسی مقام پر لفظ ” غرور‘ استعمال کرکے اس الجھن کو دور کردیا ہے ” غرر“ کا معنیٰ ہے حقیقت کے خلاف کوئی چیز پیش کرنا یا حقیقت کے خلاف مغالطہ دینا۔ غرر کا مقصد ہی دوسرے کی عقل وفہم پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ اس لیے شیطان باربار اللہ تعالیٰ کی قسمیں اٹھانے کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوا کیونکہ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کے نام کی یہ پہلی قسم تھی جس کی وجہ سے وہ دھوکا کھا گئے آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شیطان اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم بھی اٹھا سکتا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمْ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ وَلَا یُزَکِّیہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ رَجُلٌ عَلٰی فَضْلِ مَاءٍ بِطَرِیقٍ یَمْنَعُ مِنْہُ ابْنَ السَّبِیلِ وَرَجُلٌ بَایَعَ رَجُلًا لَا یُبَایِعُہٗ إِلَّا للدُّنْیَا فَإِنْ أَعْطَاہُ مَا یُرِیدُ وَفٰی لَہٗ وَإِلَّا لَمْ یَفِ لَہٗ وَرَجُلٌ سَاوَمَ رَجُلًا بِسِلْعَۃٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَلَفَ باللّٰہِ لَقَدْ أَعْطٰی بِہَا کَذَا وَکَذَا فَأَخَذَہَا)[ رواہ البخاری : کتاب الأحکام، باب من بایع رجلا لا یبایعہ إلا للدنیا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے نہ ان کو گناہوں سے پاک کریں گے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔۔ ایسا آدمی جو دوسرے شخص کو سودا عصر کے بعد اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر فروخت کرے کہ وہ اسے فلاں قیمت پر ملا ہے تو لینے والا اس کی تصدیق کرتے ہوئے اس سے لے لے حالانکہ بیچنے والے نے وہ چیز اس قیمت پر نہیں خریدی۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ رَفَعَہُ إِلَی حَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) الْبَیِّعَان بالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا أَوْ قَالَ حَتَّی یَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُورِکَ لَہُمَا فِی بَیْعِہِمَا وَإِنْ کَتَمَا وَکَذَبَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب إذا بین البیعان ولم یکتما] ” عبداللہ بن حارث حضرت حکیم بن حزام (رض) کے پاس گئے حضرت حکیم بن حزام (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا خرید و فروخت کرنے والوں کو اختیار ہے جب تک وہ علیحدہ نہ ہوجائیں یا فرمایا یہاں تک کہ وہ علیحدہ ہوجائیں تو اگر وہ دونوں سچے ہوں گے اور چیز کے نقص کی وضاحت کریں گے تو ان کے لیے اس سودے میں برکت ڈال دی جائے گی، اگر وہ چھپائیں اور جھوٹ بولیں گے تو ان کے سودے سے برکت ختم کردی جائے گی۔“