وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
اور اے آدم! تو اور تیری بیوی دونوں [١٦] اس جنت میں رہو اور جہاں سے جی چاہے کھاؤ، مگر اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔
فہم القرآن : ربط کلام : شیطان کو دھتکارنے اور راندۂ درگاہ کرنے کے بعد آدم (علیہ السلام) اور اس کی بیوی کو جنت میں قیام کرنے کا حکم ہوا۔ اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں قیام کرو اور اس درخت کے سوا تم جو چاہو کھا پی سکتے ہو۔ ہاں اگر تم اس کے قریب چلے گئے تو ظالموں کی صف میں شامل ہوجاؤ گے۔ 1۔جنت میں رکھنے کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ جنت کی سہولتوں، بہاروں اور نعمتوں کو اچھی طرح دیکھ لیں اور ان سے لطف اندوز ہولیں۔ تاکہ دنیا کی عارضی نعمتوں کو جنت کے مقابلے میں خاطر میں نہ لائیں اور دوبارہ یہاں آنے کی کوشش کریں۔ 2 ۔شاید اس کی یہ بھی حکمت ہو کہ وہ آسمانی نظام کا براہ راست مشاہدہ کریں تاکہ بحیثیت خلیفہ زمین کے انتظامات کرنے میں انہیں سہولت رہے۔ 3۔ بطور آزمائش اس درخت سے اس لیے منع کیا گیا کہ وہ خدا کے منع کردہ امور سے بچنے کی تربیت پائیں اور غلطی ہونے کی صورت میں معذرت کا رویہ اختیار کریں۔ 4۔ اس میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں شیطان کے ساتھ عداوت اور دشمنی کا مزید مشاہدہ ہو۔ تاکہ دنیا میں جا کر شیطانی اثرات وحرکات سے بچنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہیں۔ آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ مکرمہ کو جنت میں ٹھہراتے ہوئے کھلی اجازت عنایت فرمائی گئی کہ جنت میں جہاں سے چاہو اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہو لیکن ایک بات یاد رکھوکہ اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم ظالموں میں شمار ہوگے۔ جنت میں وہ کون سادرخت تھا جس کے قریب نہ جانے سے منع کیا گیا اس کے بارے میں قرآن مجید اور حدیث مبارکہ میں کوئی وضاحت موجود نہیں بعض مفسرین نے جو کچھ لکھا ہے وہ محض اسرائیلی روایات اور اٹکل پچو ہیں۔ قرآن مجید میں کئی بار یہی الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ اس درخت کے قریب جاؤگے تو ظالموں میں ہوجاؤ گے یہاں اہل علم نے ظلم کے مختلف معانی بیان کیے ہیں لیکن جوہری اعتبار سے سب کا ایک ہی معنیٰ بنتا ہے کہ کسی چیز کو اس کی اصلیت سے آگے پیچھے کرنا۔