وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ
ہم نے تمہیں زمین میں اختیار دیا [٨] اور تمہارے لیے سامان زیست بنایا۔ مگر تم لوگ کم ہی شکر ادا کرتے ہو
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اس لیے بھیجا ہے کہ وہ نیک اعمال کرکے نیکیوں کے پلڑے کو بھاری بنائے لیکن اس نے برائی کے پلڑے کو بھاری بنایا اور جہنم کا ایندھن بنا۔ انسان کو زمین پر بھیجتے وقت ہدایت کی گئی تھی کہ اب تیرا رہنا، مرنا اور محشر کے دن اٹھنا زمین سے ہی ہوگا۔ لہٰذا زمین ہی تیرا ٹھکانہ اور اس میں تیرے لیے زینت کا سامان ہے۔ ہاں یا درکھنا میری طرف سے تیری رہنمائی کے لیے احکام نازل ہوتے رہیں گے۔ جس نے اس رہنمائی کے مطابق زندگی بسر کی۔ اسے دنیا اور آخرت میں خوف و خطر نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر بسنے کے لیے وسائل اور کچھ اختیارات دیے ہیں تاکہ اسے آزمائے کہ وسائل کس طرح بروئے کار لاتا اور اپنے اختیار ات کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ وسائل اور اختیارات کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق استعمال کرنا گویا کہ اس کا شکر ادا کرنا ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز اور اللہ کے دیے ہوئے وسائل کو غلط استعمال کرکے اس کے شکر گزار بندے بننے کے بجائے باغی اور نافرمان ثابت ہوتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا انسان کے لیے کھلا پیغام ہے کہ اپنے رب کا شکر ادا کرے گا تو وہ تجھے مزید عنایت فرمائے گا۔ شکر کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو اللہ کی تابع داری میں لگائے۔ اس کی دی ہوئی طاقت کو اس کے بندوں کی خدمت اور دین کی سربلندی پر صرف کرے اس کے دیے ہوئے مال کو غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرے۔ تفسیر بالقرآن : شکر گذار لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں : 1۔ شکر گذار بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ (السباء :13) 2۔ لوگوں کی اکثریت نا شکری ہوتی ہے۔ (البقرۃ:243) 3۔ آپ انکی اکثریت کو شکر کرنے والے نہیں پائیں گے۔ (الاعراف :17)