وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
وہی تو ہے جس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا [١٩٠] اور ایک کے مقابلے میں دوسرے کے درجے [١٩١] بلند کئے تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دے رکھا ہے اسی میں تمہاری [١٩٢] آزمائش کرے۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار سزا دینے میں دیر نہیں لگاتا اور (ساتھ ہی ساتھ) وہ یقیناً بخشنے والا اور مہربان بھی ہے
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام ایسے منضبط اور مربوط طریقہ سے بنایا ہے کہ اس میں کبھی خلل اور خلا پیدا نہیں ہوا۔ رات، دن ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں روشنی اور اندھیرا ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ایک نسل دوسری نسل کی خلیفہ بنتی ہے۔ ایسے ہی انسانوں کی ایک کھیپ دوسری کھیپ کی جگہ سنبھالتی ہے۔ بیٹا باپ کی اور باپ اپنے باپ کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔ آج کا بچہ کل کو باپ بنتا ہے پھر اس کے فوت ہونے کے بعد اس کی اولاد اس کی جائیداد اور معاملات کی وارث بن جاتی ہے۔ اسی طرح ملکوں کی حکمرانی کا معاملہ ہے۔ کل کا حکمران آج نہیں اور آج کے حکمران کی مسند پر ایک مدت کے بعد کوئی اور بیٹھ جائے گا۔ خلافت کے اس نظام میں ایک فرد سے لے کر کسی بڑے سے بڑے، جابرحکمران اور نیک کو مفر نہیں سب کے سب خلافت کی زنجیر میں بندھے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے آنے پر مجبور ہیں۔ کوئی نہیں جو وسائل اور لشکر و سپاہ کی مدد سے یا اپنی نیکی اور ولایت کے بل بوتے پر اپنی جگہ پر ہمیشہ قبضہ جمائے رکھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول ترین بندے انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی اسی نظام کے تحت ایک دوسرے کے وارث بنے۔ اس نظام کو بنانے اور چلانے والا۔ اللہ اپنے بارے میں فرماتا ہے کہ وہی تو ہے جو تمھیں ایک دوسرے کے پیچھے لاتا یعنی خلیفہ بناتا ہے۔ ( سورۃ یونس : آیت۔14) میں فرمایا کہ تمھیں ایک دوسرے کا خلیفہ اس لیے بناتا ہے کہ تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنی اپنی باری میں اپنے رب کی کتنی تابعداری اور کیا کردار ادا کرتے ہو۔ آپ (ﷺ) نے اس ذمہ داری کے بارے میں یوں فرمایا کرتے تھے۔ دین کے بارے میں پرکھنے، دنیا کا نظام چلانے اور ایک کو دوسرے کے ساتھ آزمانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مختلف صلاحیتیں اور وسائل دے کر درجہ بدرجہ مراتب پر فائز فرمایا ہے۔ داعی کو رعایا کے ساتھ، امیر کو غریب کے ساتھ باپ کو اولاد اور اولاد کو والدین کے حقوق کے بارے میں، آجر کو اجیر اور چھوٹے بڑے کو ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کے ساتھ آزمانے کا انتظام کر رکھا ہے۔ تاکہ دیکھے کہ کون کیا عمل کرتا ہے ؟ جو لوگ برے عمل کرتے ہیں۔ انھیں وارننگ دی کہ یاد رکھو دنیا کی مہلت نہایت مختصر ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت جلد تمھارا حساب لینے والا ہے۔ جو لوگ نیک اعمال کی کوشش کرتے رہے لیکن پھر بھی ان سے بتقاضائے بشریت غلطیاں ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں بیماری، تکلیف اور استغفارکے ذریعے گناہ معاف کرتا ہے بالآخر اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے اور نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے۔ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ وَالْأَمِیرُ رَاعٍ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی أَہْلِ بَیْتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِہَا وَوَلَدِہٖ فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب النکاح، باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجہا] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر کسی کو اپنی ذمہ داری کے بارے میں جواب دینا ہے، امیر نگران ہے آدمی اپنے گھر کا نگران ہے اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی اور اپنے بچوں کی نگران ہے تو تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور ہر کسی سے اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔“ مسائل : 1۔ درجات میں تفاوت آزمائش کے لیے ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کسی کو نعمتیں دے کر اور کسی کو محروم رکھ کر آزماتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : آزمائش کی مختلف صورتیں : 1۔ اللہ نے موت وحیات کو انسان کی آزمائش کے لیے پیدا فرمایا۔ (الملک :2) 2۔ اللہ نے انسانوں کی آزمائش کے لیے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ ( الانعام :165) 3۔ مال واولاد انسان کے لیے آزمائش ہے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (التغابن :15) 4۔ ہم تمہیں خوف، بھوک، مال واولاد اور پھلوں کی کمی میں مبتلا کر کے ضرور آزمائیں گے۔ (البقرۃ:155)