قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
آپ ان سے کہئے کہ : میرے پروردگار نے مجھے سیدھی راہ دکھا دی ہے یہی وہ مستحکم دین ہے جو ابراہیم [١٨٤] حنیف کا طریق زندگی تھا اور سیدناابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھے
فہم القرآن : (آیت 161 سے 163) ربط کلام : دین اسلام میں کوئی اختلاف نہیں اور نہ ہی یہ دین اس قسم کے اختلافات کو پسند کرتا ہے۔ لہٰذا پیغمبر آخر الزمان (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ ملت ابراہیم کے متبع رہیں۔ سرور دو عالم (ﷺ) کا تفرقہ بازی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ آپ تو دین قیم اور سیدھی راہ کے راہی اور داعی تھے۔ لہٰذا آپ کی زبان اطہر سے اعلان کروایا گیا کہ اے محبوب برحق! آپ وضاحت فرمائیں کہ میرا ادھر ادھر کے راستوں اور متضاد نظریات رکھنے والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں میں اپنے رب کی بتلائی ہوئی راہ پر اس کی توفیق سے گامزن ہوں۔ یہی دین ہمیشہ سے قائم دائم ہے۔ اور اسی پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مل یکسوئی کے ساتھ قائم رہے۔ ان کا مشرکین کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ شرک سے بیزار اور توحید خالص کے پرستار تھے۔ وہ نماز قائم کرنے اور دین حق کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے والے تھے۔ ان کی موت و حیات کا مقصد ہی توحید کا پرچار اور اپنے رب کی فرمانبرداری تھا۔ یہی میرا نصب العین اور میری زندگی کا مشن ہے۔ اس لیے میری نماز، قربانی اور زندگی کا ہر لمحہ یہاں تک کہ میری موت بھی رب العالمین کے حکم پر ہوگی۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے یہی حکم ہے کہ میں عقیدۂ توحید پر قائم رہ کر اس کے دین کی دعوت دیتے ہوئے سب سے پہلے اپنے رب کی فرمانبرداری کا مظاہرہ کروں گویا کہ جس دعوت کا میں داعی ہوں اس پر سب سے پہلے میں ہی عمل کرنے والا ہوں، اسی بات کا نتیجہ ہے۔ میدان کار زار ہو یا صدقہ و قربانی آپ (ﷺ) اپنے صحابہ (رض) میں سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسجد نبوی کی تعمیر کا معاملہ پیش آیا تو اپنے جسم اطہر پر پتھراٹھائے ہوئے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو امت کے لیے اسوۂ حسنہ بنایا تھا اور آپ اول المسلمین ہیں۔ اور یہی دینی قیادت کا وطیرہ ہونا چاہیے کہ وہ عوام الناس کے لیے نمونہ ثابت ہوں۔ اس سے لوگوں کے دلوں میں اخلاص اور جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ ہی صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یکسو اور پکے مسلمان تھے۔ 3۔ انسان کی زندگی و موت کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہونی چاہیے۔ 4۔ نبی اکرم (ﷺ) اللہ کے حکم پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے اور امت کے لیے نمونہ تھے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں : 1۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے۔ (الاسراء :111) 2۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے۔ (الفرقان :2) 3۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ الٰہ ایک ہی ہے (النحل :51) 4۔ کیا اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے؟ اللہ تعالیٰ شراکت داری سے پاک ہے۔ (الطور :43) 5۔ کیا تم انہیں اللہ کے شریک قرار دیتے ہوجنہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا اور وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الاعراف :191) 6۔ کہہ دیجیے الٰہ ایک ہی ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام :19) 7۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (النساء :36)