إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ [١٨٢] ڈالا اور کئی فرقے بن گئے، ان سے آپ کو کچھ سروکار نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہ خود ہی انہیں بتلا دے گا کہ وہ کن کاموں میں لگے ہوئے تھے
فہم القرآن : ربط کلام : انسان کی گمراہی کے اسباب میں ایک کا سبب دین میں اختلاف کرنا ہے۔ باہمی اختلاف کی صورت میں لوگ ٹھوس دلائل کے باوجود انکار کی روش پر قائم رہتے ہیں۔ سورۃ آل عمران میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی دین حق ہے۔ جس کے بنیادی اصول ہمیشہ سے ایک رہے ہیں۔ وہ توحید و رسالت کے بارے میں ہوں یا حلال و حرام اور اخلاق و معاملات کے متعلق۔ لہٰذا جو دین کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں اور اس کو لوگوں کی نظروں میں مختلف فیہ بناتے ہیں۔ اے نبی (ﷺ) ! آپ کا ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی آپ کے ماننے والوں کا ایسے لوگوں کے ساتھ تعلق ہونا چاہیے۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے وہ ان کو بتائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ دین میں تفرقہ بازی کا ذکر کرتے ہوئے رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا کہ یہودی اپنے دین میں اختلاف کرنے کی وجہ سے اکہتر فرقے ہوئے، عیسائی اختلاف کی بنا پر بہتر گروہوں میں تقسیم ہوگئے اور میری امت ایک قدم آگے بڑھتی ہوئی تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ) اختلاف اخلاق و اعمال اور باہمی محبت کے لیے نہایت ہی نقصان دہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ اختلاف نیکی اور دین کے نام پر ہو تو اس کے نتائج بڑے ہولناک اور گمراہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ دین انسانوں میں وحدت اور اکائی پیدا کرنے کے لیے آیا ہے اگر اسی کو ہی اختلاف کی بنیاد بنا لیا جائے تو قیامت تک لوگ اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے نہ صرف یہود و نصاریٰ الگ الگ امت کی بنیاد پر آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں بلکہ ان کے اپنے اپنے گروہ ایک دوسرے کو کافر گمراہ اور جہنمی قرار دیتے ہیں اس صورتحال سے بچنے کے لیے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کو بلا شرکت غیرے الٰہ ماننے اور نبی آخر الزمان (ﷺ) کو بہترین اسوہ قرار دیتے ہوئے آپ کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ تاکہ توحید اور نبی کو ماننے والے متحد و متفق رہیں۔ یہودی تحقیق کے نام پر دین میں غلو کرکے گمراہ ہوئے اور عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کی عقیدت میں حد سے بڑھے اور صراط مستقیم سے ہٹ گئے۔ آپ (ﷺ) نے غلو سے بچنے کے لیے مسائل کی کھال اتارنے اور دین میں قیل و قال سے منع فرمایا اور عقیدت و محبت میں آکر کسی شخصیت کو اس کے مرتبہ و مقام سے بڑھانے سے روکا ہے۔ یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے دین دار لوگ گمراہ ہوا کرتے ہیں۔ (عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ (رض) قَالَ وَعَظَنَا رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَوْمًا بَعْدَ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ مَوْعِظَۃً بَلِیغَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُونُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوبُ فَقَالَ رَجُلٌ إِنَّ ہٰذِہٖ مَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْہَدُ إِلَیْنَا یَا رَسُول اللّٰہِ قَالَ أُوصِیکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ فَإِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ یَرٰی اخْتِلَافًا کَثِیرًا وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّہَا ضَلَالَۃٌ فَمَنْ أَدْرَکَ ذٰلِکَ مِنْکُمْ فَعَلَیْہِ بِسُنَّتِی وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاء الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ عَضُّوا عَلَیْہَا بالنَّوَاجِذِ)[ رواہ الترمذی : کتاب العلم، باب ماجاء فی الأخذ بالسنۃ] ” حضرت عرباض بن ساریہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (ﷺ) نے ہمیں نماز فجر کے بعد بلیغ وعظ کیا۔ اس سے ہمارے دل کانپ اٹھے اور آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ ایک شخص نے عرض کی یہ تو الوداعی وعظ و نصیحت لگتی ہے اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! آپ ہم سے کیا وعدہ لینا چاہیں گے؟ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا میں تمھیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں اور اس کے ساتھ سمع اور اطاعت کی بھی۔ اگرچہ تم پر ایک حبشی غلام ہی ذمہ دار بنا دیا جائے۔ جو کوئی تم میں سے زندہ رہا میرے بعد وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ تم دین میں نئے نئے کاموں سے بچو۔ بلاشبہ وہ گمراہی ہے جو کوئی تم میں سے ایسی صورت حال پائے تو وہ میرے اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کے طریقے کو لازم پکڑے اور اسے دانتوں سے مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھے۔“ (عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَجُلًا قَرَأَ آیَۃً وَسَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقْرَأُ خِلَافَہَا فَجِئْتُ بِہِ النَّبِیَّ (ﷺ) فَأَخْبَرْتُہٗ فَعَرَفْتُ فِی وَجْہِہِ الْکَرَاہِیَۃَ وَقَالَ کِلَاکُمَا مُحْسِنٌ وَّلَا تَخْتَلِفُوا فَإِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ اخْتَلَفُوا فَہَلَکُوا) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں میں نے ایک آدمی کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سنا جب کہ میں نے نبی معظم (ﷺ) کو وہی آیت تلاوت کرتے سنا تھا۔ آپ اس سے مختلف انداز سے تلاوت کر رہے تھے۔ میں اس شخص کو لے کر نبی اکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس کی تلاوت کے بارے میں بتلایا۔ میں نے آپ کے چہرے پر کراہت کے آثار دیکھے آپ نے فرمایا دونوں طریقے ٹھیک ہیں اور تم اس طرح اختلاف نہ کیا کرو بلاشبہ جو لوگ تم سے پہلے تھے انھوں نے اختلاف کیا اور وہ ہلاک ہوگئے۔“ ( عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلٰی بَنِی إِسْرَاءِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِی إِسْرَاءِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوا وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی)[ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح جو تا ایک دوسرے کے ساتھ ملتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے علانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئی جبکہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گئے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے رسول معظم (ﷺ) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کرام (رض) کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔ مسائل: 1۔ فرقہ واریت گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔ 2۔ جو لوگ تفرقہ بازی کرتے ہیں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ 3۔ فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کو ضرور سزا دی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن : دین میں تفریق کی ممانعت : 1۔ دین پر قائم رہو جدا جدا نہ ہوجاؤ۔ (الشوریٰ:13) 2۔ کئی راستوں کی اتباع نہ کرنا وہ تمھیں سیدھے راستہ سے گمراہ کردیں گے۔ (آل عمران :153) 3۔ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو جدا جدا ہوگئے اور انہوں نے باہم اختلاف کیا۔ (آل عمران :105) 4۔ اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ (آل عمران :103) 5۔ دین میں تفرقہ ڈالنے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ (الانعام :159) 6۔ مشرکین سے نہ ہوجاؤ جنھوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور کئی فرقے بن گئے۔ (الروم :32)