أَن تَقُولُوا إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَىٰ طَائِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ
نیز اس لیے (یہ کتاب نازل کی ہے) کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دو گروہوں (یہود و نصاریٰ) پر ہی اتاری گئی تھی اور ہم تو ان کے پڑھنے پڑھانے سے [١٧٩] بے خبر رہے
فہم القرآن : (آیت 156 سے 157) ربط کلام : اہل کتاب کے بعد اہل مکہ کو خطاب۔ سابقہ آیات میں اہل کتاب سے خطاب تھا اور اب اہل مکہ کے حوالے سے پوری دنیا کو مخاطب کیا گیا ہے تاکہ اہل مکہ اور باقی لوگوں کے لیے یہ بہانہ نہ رہے کہ یہود و نصاریٰ کی ہدایت کے لیے تو کتاب نازل کی گئی تھی۔ ہمیں کتاب سے کیوں محروم رکھا گیا۔ یہاں ان دو گروہوں کے لیے تورات اور انجیل کا الگ الگ ذکر کرنے کے بجائے ” الکتاب“ فرما کر صرف ایک کتاب یعنی تورات کا ذکر کیا گیا ہے یہ اس لیے کہ انجیل تورات ہی کے احکام کا تتمہ اور تفصیل ہے۔ اس بنا پر عیسائیوں، یہودیوں کے لیے ” الکتاب“ لا یا گیا ہے۔ پھر اہل مکہ اور قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کو مخاطب کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید جیسی مفصل اور مبارک کتاب اس لیے نازل فرمائی ہے کہ تمھیں یہ بات کہنے کا جواز نہ مل سکے کہ ہمارے پاس براہ راست کوئی کتاب نہیں آئی۔ جس سے ہم ہدایت حاصل کرتے۔ قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ تمھیں یہ کہنے کا موقع نہ مل پائے کہ اگر ہم پر اللہ کی کتاب نازل ہوتی تو ہم یہود و نصاریٰ کی طرح گمراہ ہونے کے بجائے ہدایت یافتہ ثابت ہوتے۔ اس بہانے کو رفع کرنے اور اتمام حجت کے لیے تمھارے پروردگار کی طرف سے واضح کتاب پہنچ چکی ہے۔ جو سراسر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا سر چشمہ اور اس کی رحمت کا ذریعہ ہے جو شخص اس کتاب کی ہدایت، دلائل اور بینات کو جھٹلاتا اور ان سے منہ پھیرتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہو سکتا۔ ایسا شخص گمراہی میں پڑ کر اپنے آپ پرہی ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی نسل اور لوگوں کے لیے ہدایت کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلائیں، ان سے انحراف کریں اور ہدایت کے راستہ میں رکاوٹ بنیں ا نھیں بد ترین عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے سے مراد زبان سے ان کی تکذیب کرنا یا جان بوجھ کر ان سے اعراض کرنا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اس لیے نازل کیا تاکہ لوگوں کو اپنی گمراہی کا بہانہ نہ رہے۔ 2۔ قرآن مجید مفصل، جامع اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت اور رحمت کا پیغام ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنا یا اس سے انحراف کرنے والا ظالم انسان ہے۔ تفسیر بالقرآن : ظالم لوگ : 1۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام :144) 2۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا اور اس کی آیات کو جھٹلانے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام :21) 3۔ جو اللہ کی آیات سن کر اعراض کرتا ہے وہ ظالم ہے۔ (الکہف :57) 4۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا اور سچائی کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (العنکبوت :68) 5۔ اسلام کی دعوت پہنچ جانے کے باوجودجو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ ظالم ہے۔ (الصف :7) 6۔ گواہی کو چھپانے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ:140) 7۔ مسجدوں سے روکنے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ:114)