سورة الانعام - آیت 151

قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آپ ان سے کہئے : آؤ! میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے [١٦٥] پروردگار نے تم پر کیا کچھ حرام کیا ہے اور وہ یہ باتیں ہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک [١٦٦] نہ بناؤ۔ اور یہ کہ والدین [١٦٧] سے اچھا سلوک کرو، اور یہ کہ مفلسی کے ڈر [١٦٨] سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو (کیونکہ) ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں تو ان کو بھی ضرور دیں گے، اور یہ کہ بے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ، خواہ یہ کھلی [١٦٩] ہوں یا چھپی ہوں، اور یہ کہ جس جان کے مارنے کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرو الا یہ کہ حق [١٧٠] کے ساتھ ہو۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کا اللہ نے تمہیں تاکیداً حکم دیا ہے۔ شاید کہ تم عقل سے کام لو

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : مشرکین مکہ من گھڑت حلال و حرام کی فہرست کو اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے تھے جس کی تردید کرنے کے بعد اب وہ فہرست پیش کی جارہی ہے جس کو حقیقتاً اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اس میں اعتقادی، اخلاقی، اور معاشی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ شرک کے پیشواؤں اور یہودیوں کے رہنماؤں نے اپنی طرف سے حلال و حرام کے قواعد بنا کر لوگوں کو یہ تاثر دیا ہوا تھا۔ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام کی گئی ہیں۔ پہلی آیات میں ان کے جھوٹ کی قلعی کھول کر اس فہرست کو عقل و نقل کے خلاف ثابت کیا ہے پھر اس پر ان سے گواہی طلب کی گئی جب وہ ان چیزوں کی حرمت و حلت کے بارے میں گواہی دینے سے انکاری اور ان کے جواز کی دلیل دینے میں ناکام ہوئے تو آپ کو حکم ہوا کہ انھیں بلائیں اور ارشاد فرمائیں کہ وہ چیزیں حرام نہیں جنھیں تم حرام کہتے ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں میرے دین اور پہلی شریعتوں میں حرام قرار دی ہیں۔ 1۔ شرک : اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں غیروں کو شریک سمجھنا اور شرک کرنا ہے۔ شرک کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا ہے اس کی کوئی دلیل نہیں اتاری گئی۔ اس لیے اسے ظلم عظیم قرار دیا گیا جو شخص شرک کے حق میں دلیل دیتا ہے گویا کہ وہ خاکم بدہن، اللہ تعالیٰ کو جھوٹا قرار دے کر اس کی ذات اور صفات میں شریک ثابت کرنے کی گھٹیا ترین کوشش کرتا ہے۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) نے شرک کی تردید کے لیے اپنی زندگیاں صرف کردیں۔ لیکن اس کے باوجود مشرک اس کے جواز کی دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے شدید ترین الفاظ میں اسے ظلم اور ناجائز ثابت کر کے ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ سُئِلَ النَّبِیَّ () عَنِ الْکَبَائِرِ قَالَ الْإِشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَشَہَادَۃُ الزُّورِ) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب ماقیل فی شہادۃ الزور] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (ﷺ) سے استفسار کیا گیا کہ گناہ کبیرہ کون سے ہیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، بے گناہ کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔“ 2۔ والدین کی نافرمانی : قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کا اثبات اور شرک کی نفی کرتے ہوئے والدین کے احترام و مقام اور ان کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے۔ ہر مرتبہ والدین کی اطاعت کا حکم دے کر لفظ احسان استعمال فرمایا ہے۔ حدیث میں احسان کا لفظ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بارے میں استعمال ہوا ہے کہ عبادت گزار کے ذہن میں یہ تصور پیدا ہو جیسا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو براہ راست دیکھ رہا ہے۔ اگر احسان کا یہ درجہ حاصل نہیں ہوتا تو کم ازکم یہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ وہ یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ (مسلم : باب بیان الایمان والاسلام والاحسان) ” احسان“ کا دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ کوئی نیکی نہ بھی کرے پھر بھی اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ تمام شریعتوں میں اخلاق کے اس درجہ کو احسان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں والدین کے بارے میں یہ لفظ 5 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ جس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اولاد کو والدین کی کمزور یوں پر نظر رکھنے کے بجائے ان کے مرتبہ و مقام اور احسانات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقام و مرتبہ کے ساتھ والدین کے مقام کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ والدین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بعد انسان کی تخلیق اور پرورش کا واحد ذریعہ قرار دیا ہے اور اسی تصور کو تازہ کرنے اور یاد رکھنے کے لیے یہ دعا کرنے کا حکم دیا۔ (عن عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ () أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ قَال الصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِہَا قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِی سَبِیل اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِی بِہِنَّ وَلَوْ اسْتَزَدْتُہُ لَزَادَنِی) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب قول اللہ تعالیٰ ووصینا الانسان بوالدین احسانا] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (ﷺ) سے استفسار کیا کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا عمل ہے ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں یہ باتیں نبی اکرم (ﷺ) نے بتائیں اگر میں مزید پوچھتا تو آپ مجھے اور بھی بتاتے۔“ قتل اولاد : سورۃ الانعام کی آیت 137کے تفسیر کرتے ہوئے عرض کیا گیا ہے کہ ہمیشہ سے دنیا میں قتل اولاد چار صورتوں میں سے کوئی ایک صورت رہی ہے۔ 1۔ رزق کی تنگی کی وجہ سے اولاد قتل کرنا۔ 2۔ غیر اللہ کے نام پر بچوں کو قتل کرنا۔ 3۔ رشتۂ داماد کی عار سے بچنے کے لیے بیٹیوں کو قتل کرنا۔ 4۔ جنگ و جدال میں بچیوں کی گرفتاری کے خوف سے قتل کرنا۔ قتل اولاد کے جرم کے بارے میں سورۃ الانعام آیت 137کی تشریح ملاحظہ فرمائیں۔ ” زمانۂ جاہلیت کا یہ فعل قبیح آج کل ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زور و شور سے جاری ہے اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔“ کھلی اور پوشیدہ بے حیائی سے اجتناب کا حکم : دین اسلام اپنے ماننے والے کو صرف بے حیائی کرنے سے ہی نہیں روکتا بلکہ دین ایسے ذرائع اور مقامات کے قریب جانے سے بھی منع کرتا ہے جس سے اس کی آنکھوں میں بے حیائی، دماغ میں بری سوچ اور اس کا وجود برائی کی طرف مائل ہوجائے۔ اس کے لیے سورۃ بنی اسرائیل آیت 32میں فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ یہ بے حیائی کے ساتھ بدترین راستہ ہے۔ سورۃ الانعام، آیت 120میں حکم دیا گیا کہ گناہ کھلا ہو یا پوشیدہ اسے چھوڑ دینا چاہیے۔ سورۃ النحل، آیت : 90میں کھلی بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کیا گیا ہے۔ یہاں بھی یہی حکم ہوا کہ بے حیائی کھلی ہو یا پوشیدہ اس کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ کیونکہ جو شخص بے حیائی کی طرف توجہ کرتا ہے اس کے بارے میں خطرہ ہے کہ وہ کسی وقت بھی اس میں ملوث ہوجائے گا۔ اسی خطرے کے پیش نظررسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے : (عن أبی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلٰی ابْنِ آدَمَ حَظَّہٗ مِنَ الزِّنَا أَدْرَکَ ذٰلِکَ لَا مَحَالَۃَ فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَمَنّٰی وَتَشْتَہِی وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذٰلِکَ کُلَّہٗ وَیُکَذِّبُہُ) [ رواہ البخاری : کتاب الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد پر اس کا حصہ زنا کا مقرر کردیا ہے وہ اس سے بچ نہیں سکتا وہ اس کو پالے گا آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے اور زبان کا زنا فحش باتیں کرنا ہے۔ انسان کا نفس اس کی خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِیفَ رَسُول اللّٰہِ () فَجَاءَ تْہُ امْرَأَۃٌ مِّنْ خَثْعَمٍ تَسْتَفْتِیہٖ فَجَعَلَ الْفَضْلُ یَنْظُرُ إِلَیْہَا وَتَنْظُرُ إِلَیْہِ فَجَعَلَ رَسُول اللّٰہِ () یَصْرِفُ وَجْہَ الْفَضْلِ إِلَی الشِّقِّ الْآخَر) [ رواہ ابوداؤد : کتاب المناسک، باب الرجل یحج عن غیرہ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں فضل بن عباس (رض) نبی معظم (ﷺ) کے پیچھے سواری پر سوار تھے نبی اکرم (ﷺ) کے پاس ایک عورت خثعم قبیلہ کی آئی اور کوئی مسئلہ پوچھنے لگی۔ فضل بن عباس اس کی طرف دیکھنے لگے اور عورت اس کی طرف دیکھنے لگی رسول معظم (ﷺ) نے فضل بن عباس (رض) کا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا۔“ قتل نفس : سورۃ المائدۃ، آیت 31اور 32میں دنیا میں انسانی قتل کے پہلے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اسی وقت سے بنی اسرائیل پر یہ بات لاگو کردی تھی کہ جس نے کسی شخص کو ناجائز قتل کیا یا زمین میں دنگا فساد اور تخریب کاری کی تو گویا اس نے سب انسانوں کو تہہ تیغ کردیا ہے اور جس نے ایک شخص کی جان بچالی اس نے پوری انسانیت کا تحفظ کیا اسلام میں کسی کو قتل کرنے کی بنیادی طور پر چار صورتیں ہیں۔ 1۔ جو شخص دین اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجائے اسے قتل کردیا جائے۔ 2۔ قتل کے بدلے قتل۔ 3۔ شادی شدہ زانی کو پتھر مار مار کر ختم کیا جائے۔ 4۔ خلیفہ، برحق کے ہوتے ہوئے جو شخص اس کی خلافت میں دوسری خلافت قائم کرے یا بغاوت کرے اسے قتل کردیا جائے۔ قیامت کے دن حقوق اللہ کے بارے میں پہلا فیصلہ نماز کے بارے میں اور حقوق العباد کے بارے میں پہلا مقدمہ انسانی قتل کے بارے ہوگا۔ (عَنْ جَرِیرٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ () قَالَ لَہٗ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ اسْتَنْصِتْ النَّاسَ فَقَالَ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ)[ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب الانصات للعلماء ] ” حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی معظم (ﷺ) نے اسے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا لوگوں کو خاموش کراؤ پھر فرمایا اے لوگو! میرے بعد تم کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم باہم ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردو۔“ اس آیت میں شرک سے منع کرنا، قتل اولاد سے روکنا، کھلی اور پوشیدہ برائی سے دور رہنا اور ناجائز قتل کرنے سے روکنے کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے شرک سے پوری طرح بچ کر اللہ تعالیٰ کی توحید کا عقیدہ اپنایا جائے اور اولاد کو رزق کی تنگی کی بنا پر قتل کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی رزاقی پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کی پرورش اور تربیت کی جائے۔ ہر قسم کی بے حیائی کے قریب جانے کے بجائے عفت و عصمت کی حفاظت کی جائے اور دوسرے کو ناحق قتل کرنے کے بجائے اس کے مال وجان، عزت وآبرو کی حفاظت کی جائے اور والدین کی نافرمانی کی بجائے ان کے ساتھ حسن سلوک برتا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دانشمندوں کے لیے وصیت ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والا درحقیقت حماقت کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ توحید کا عقیدہ انسان کو اس کے رب کے قریب کرنے، غیرت مند بنانے کے ساتھ اس کے شرف میں اضافہ کرتا ہے۔ 2۔ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں انسان کا اپنا فائدہ اور گھر میں محبت و الفت کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ والدین کی دعائیں ملتی ہے۔ 3۔ انسان اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق سے فائدہ اٹھائے اور ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہو مگر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد کو قتل کر دے عقلمندی کے بجائے پرلے درجے کی حماقت ہے۔ 4۔ کسی کو ناجائزقتل کرنا انسان دشمنی اور درندگی ہے جس کی عقلمند شخص سے توقع نہیں کی جا سکتی۔