قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
آپ ان سے کہئے کہ : جو وحی میری طرف آئی ہے اس میں میں تو کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام کی گئی ہو الا یہ کہ وہ مردار ہو یا [١٥٧] بہایا ہوا خون ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ وہ چیز اللہ کے سوا کسی اور کے نام سے مشہور کردی گئی ہو۔ ہاں جو شخص لاچار ہوجائے درآنحالیکہ وہ نہ تو (اللہ کے قانون کا) باغی ہو اور نہ ضرورت سے زیادہ کھانے والا [١٥٨] ہو (تو وہ اسے معاف ہے) کیونکہ آپ کا پروردگار بخش دینے والا اور رحم کرنے والا ہے
فہم القرآن : (آیت 145 سے 147) ربط کلام : حرام و حلال کے عقلی، شرعی اور توحید کے دلائل دینے کے بعد نبی اکرم (ﷺ) کو وضاحت کے لیے مزید کہا جارہا ہے۔ اہل مکہ نے اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو ایک دوسرے کے لیے حرام قرار دے لیا تھا۔ جس کی سابقہ آیات میں نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق کو خود ساختہ شریعت کی وجہ سے اپنے آپ پر حرام کرلیا ہے وہ گمراہ ہوئے۔ پھر نباتات اور حیوانات کے حوالے سے توحید کے دلائل دیے جس میں یہ ثابت کیا گیا ان کے خالق کے علاوہ کسی کو حرام و حلال کے تعین کرنے کا حق نہیں۔ کفار نے من مرضی سے قانون بنا کر لوگوں کو یہ تاثر دیا تھا کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام کردہ ہیں۔ اس کے ان کے پاس شرعی دلائل نہ تھے۔ کیونکہ کسی شریعت میں حرام و حلال کی یہ فہرست نازل نہیں ہوئی کہ جس میں یہ بتلایا گیا ہو کہ کھانے پینے کی فلاں چیز مرد کے لیے جائز اور عورت کے لیے حرام ہے اور فلاں چیز عورت کے لیے حلال ہے لیکن مرد کے لیے حرام ہے۔ یہ ایسی تقسیم ہے جس کے بارے میں خوامخواہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیا سبب ہے کہ فلاں کھانے کی چیز شرعی طور پر مرد کے لیے جائز ہے اور عورت کے لیے حرام۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لباس اور زیورات کے بارے میں مرد و زن میں شریعت نے فرق قائم کیا ہے لیکن خورد و نوش کے سلسلہ میں حرام و حلال کے اصول سب کے لیے برابر ہیں۔ اس لیے ان کے پاس اپنی بنائی ہوئی شریعت کا کوئی عقلی ثبوت نہیں تھا۔ اور نہ ہی اس تقسیم کا کوئی ثبوت پہلی شریعتوں میں پایا جاتا ہے کہ کھیتی کا اتنا حصہ غیر اللہ کے نام وقف کیا جائے اور اگر اس وقف میں کسی وجہ سے نقصان ہو تو وہ فی سبیل اللہ کے کھاتہ سے پورا کرلیا جائے۔ اس کے برعکس تمام شریعتوں میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی غیر اللہ کے نام دینا شرک ہے۔ چونکہ ان کے پاس عقلی و نقلی دلائل نہیں تھے اس لیے نبی اکرم (ﷺ) کو حکم ہوا کہ ان کو بتلائیں کہ وحی تمھارے پاس نہیں میرے پاس آتی ہے اور اس وحی میں کھانے والے پر کوئی چیز کھانا حرام نہیں سوائے مردار، بہنے والے خون، خنزیر کے گوشت کے کیونکہ وہ پلید اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ اسی طرح وہ چیز بھی حرام ہے جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کی گئی ہو۔ یہ چیزیں اس شخص کے لیے حلال ہوں گی جسے کھانے کے لیے کوئی چیز میسر نہ ہو اور اسے اپنی موت واقع ہونے کا خطرہ لاحق ہوجائے۔ اور یہ شخص عام حالات میں حرام و حلال کی تمیز کرنے والا ہو۔ ایسی صورت میں حرام کھانے والے کو اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ بعض لوگ اس آیت میں لفظ ﴿اِلاَّ﴾ سے غلط استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا چیزوں کے سوا باقی تمام چیزیں حلال ہیں۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے لفظ ﴿اِلاَّ﴾ حصر کے لیے آتا ہے جس کا معنی ہے کہ صرف یہی چیزیں حرام ہیں جس بنا پر وہ غلط استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان چیزوں کے علاوہ کھانے پینے کی باقی چیزوں پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ حالانکہ قرآن مجید میں شراب حرام کی گئی جو پینے کی چیز ہے کھانے کے سلسلہ میں مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کی ہوئی چیز کے ساتھ وہ جانور جو گلا گھٹ کر، چوٹ کھا کر بلندی سے گر کر یا سینگ کی ضرب سے مر گیا ہو وہ بھی حرام ہے۔ [ المائدۃ:3] ان کا استدلال اس لیے بھی غلط ہے کہ یہاں ان چار چیزوں کی حرمت کے فوراً بعد تورات کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہودیوں پر ناخن والے جانور حرام کرنے کے ساتھ، بکری اور گائے کی چربی بھی حرام کی گئی تھی سوائے اس کے جو جانور کی ہڈیوں سے الگ نہیں ہو سکتی تھی یہ چربی اس لیے ان پر حرام کی گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے تھے۔ آخر میں کفار کے بوسیدہ دلائل کا یہ کہہ کر جواب دیا گیا ہے کہ حلال و حرام کی جو فہرست اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے ہیں اس میں وہ جھوٹ بولتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق جو فہرست مرحمت فرمائی ہے وہ سراسر سچ ہے۔ اگر ٹھوس دلائل کے باوجود یہ لوگ آپ (ﷺ) کی تکذیب کرتے ہیں اور ان کی گرفت نہیں ہو رہی تو انھیں فرمائیں چونکہ اللہ تعالیٰ اعلیٰ ظرف اور اس کی رحمت بے کنار ہے اس لیے وہ تمھیں مہلت دیتا ہے۔ لیکن یاد رکھو جب اس کا عذاب نازل ہوگا تو اس سے مجرم کو کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ قارئین کی سہولت کے لیے ہم جلد اول کی پوری پوری عبارت درج کرتے ہیں۔ جوسورۃ البقرۃ 173میں ان چار چیزوں کے حرام ہونے کے بارے میں پیش کی گئی ہے۔ (1) مردار : ہرقسم کے مردار کھانے سے منع کیا گیا ہے سوائے دوچیزوں کے رسول کریم (ﷺ) کا ارشاد ہے : (اُحِلَّتْ لَنَا مَیْتَتَانِ اَلْحُوْتُ وَالْجَرَادُ) [ رواہ ابن ماجہ : کتاب الصید، باب صید الحیتان والجراد] ” ہمارے لیے دو مردار حلال کیے گئے ہیں۔ مچھلی اور ٹڈی۔“ (2) خون : نزول قرآن کے وقت وحشی قبائل نہ صرف مردار کھایا کرتے بلکہ وہ جانوروں کا خون بھی پی جایا کرتے تھے۔ جس طرح آج بھی افریقہ کے کئی وحشی قبائل جانوروں کا ہی نہیں بلکہ انسانوں کا بھی خون پینے سے گریز نہیں کرتے۔ جدید تحقیق کے مطابق خون میں کئی ایسے جراثیم ہوتے ہیں جن سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے مردہ یا زندہ جانور کا خون پینے سے منع فرما دیا ہے البتہ کسی کی زندگی بچانے کے لیے خون کا طبی استعمال جائز ہے۔ (3) خنزیر : خنزیر کا گوشت کھانا بھی حرام ہے۔ اس کے بارے میں جدید اور قدیم اطباء کا اتفاق ہے کہ اس کا گوشت کھانے سے انسان کے جسم میں نہ صرف مہلک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ آدمی میں بے حیائی اور بے شرمی کے جذبات ابھرتے ہیں۔ کیونکہ خنزیر جانوروں میں سب سے زیادہ بے غیرت جانور ہے۔ کوئی بھی جانور اپنی جنم دینے والی مادہ کے ساتھ اختلاط کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا سوائے خنزیرکے۔ اس کی طبیعت میں اس کام میں کوئی جھجک نہیں پائی جاتی۔ (4) غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ : غیر اللہ کے نام پر ذبح کی ہوئی یا پکائی ہوئی چیز اس لیے حرام کی گئی کہ اس سے روح، غیرت اور ایمان کی موت واقع ہوتی ہے۔ ایک غیرت مند ایمان دار سے یہ کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ٹھہرائے گئے شریک کے نام پر چڑھائی گئی چیز کھانے یا استعمال کرنے پر آمادہ ہوجائے ؟ یہ نہ صرف غیرت ایمانی کے منافی ہے بلکہ فطرت بھی اس بات کو گوارا نہیں کرتی بشرطیکہ کسی کی فطرت ہی مسخ نہ ہوچکی ہو۔ فطرت سلیم کا ثبوت اس فرمان کے نازل ہونے سے پہلے مکہ میں پایا گیا ہے۔ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) أَ نَّہٗ لَقِیَ زَیْدَ بْنَ عَمْرِ و بْنِ نُفَیْلٍ بِأَسْفَلَ بَلْدَحٍ وَذَاکَ قَبْلَ أَنْ یُّنْزَلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) الْوَحْیُ فَقُدِّمَتْ إِلَی النَّبِیِّ (ﷺ) سُفْرَۃٌ فَأَبٰی أَنْ یَّأْکُلَ مِنْھَا ثُمَّ قَالَ زَیْدٌ إِنِّیْ لَسْتُ آکُلُ مِمَّا تَذْبَحُوْنَ عَلٰی أَنْصَابِکُمْ وَلَا آکُلُ إِلَّا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح والصید، باب ماذبح علی النصب والأصنام] ” وحی نازل ہونے سے پہلے بلدح کے نشیبی علاقے میں رسول کریم (ﷺ) کی ملاقات زید بن عمر وبن نفیل سے ہوئی۔ رسول معظم (ﷺ) کے سامنے ایک دستر خوان لایا گیا جس پر غیر اللہ کے نام کی کوئی چیز تھی۔ آپ نے کھانے سے انکار کردیا۔ اسکے ساتھ ہی جناب زید نے کہا کہ میں بھی ان ذبیحوں کا گوشت نہیں کھاتا جو تم اپنے آستانوں پر ذبح کرتے ہو اور نہ ان جیسی کوئی اور چیز کھاتاہوں۔ سوائے اس چیز کے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔“ مزارات اور بت خانوں پر ذبح کرنا حرام ہے : (عَنْ ثَابِتِ ابْنِ الضَّحَاکِ (رض) قَالَ نذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَأَتَی النَّبِیَّ (ﷺ) فَقَالَ إِنِّیْ نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَقَال النَّبِیُّ (ﷺ) ھَلْ کَانَ فِیْھَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاھِلِیَّۃِ یُعْبَدُ قَالُوْا لَا قَالَ ھَلْ کَانَ فِیْھَا عِیْدٌ مِنْ أَعْیَادِھِمْ قَالُوْا لَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) أَوْفِ بِنَذْرِکَ فِإِنَّہٗ لَاوَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ) [ رواہ أبوداؤد : کتاب الأیمان والنذور باب مایؤمربہ من وفاء النذر] ” ثابت بن ضحاک (رض) نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) کے دور میں ایک آدمی نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس نے رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آکر عرض کی میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کروں گا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے پھر پوچھا : کیا وہاں کوئی ان کا میلہ لگتا تھا؟ صحابہ نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی والی نذر پوری نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ نذر پوری کرنالازم ہے جس کی انسان طاقت نہیں رکھتا۔“ اللہ تعالیٰ کا رحم وکرم تو دیکھیے کہ ان چار چیزوں سے سختی کے ساتھ منع کرنے کے باوجود ایسے شخص کے لیے ان کو کھانے کی اجازت دی جارہی ہے جسے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ شرط رکھی کہ نہ وہ پہلے سے ان چیزوں کے کھانے کا عادی ہو اور نہ ہی حرام خوری کی طرف اس کا دل مائل ہو۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس جانور پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے، صرف وہی حرام ہوتا ہے۔ یہ تصور بالکل غلط ہے، کیونکہ قرآن کے الفاظ میں نہ جانور کا ذکر ہے نہ ذبح کا بلکہ ” ما“ کا لفظ ہے جس میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو چیز کسی فوت شدہ بزرگ‘ دیوی، دیوتا کا تقرب حاصل کرنے اور اس کے نام پر مشہور کردی جائے جیسے امام جعفر کے کو نڈے، بی بی پاک دامن کی صحنک، مزار کے لیے بکرا وغیرہ یہ سب چیزیں حرام ہیں۔ اگر کوئی چیز جو فی نفسہٖ حلال ہو اور اس پر ذبح کے وقت اللہ کا نام ہی کیوں نہ لیا جائے وہ حرام ہی رہے گی۔ کیونکہ غیر اللہ کے نام کی نیت رکھنے سے ہی وہ چیز حرام ہوجائے گی۔ اللہ کی عطا کردہ چیزوں کی قربانی یا نذر ونیاز صرف اللہ کے نام کی ہونا چاہیے اس میں کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔ ہاں اگر کوئی شخص صدقہ وخیرات یا قربانی کرتا ہے اور اس سے اس کی نیت یہ ہو کہ اس کا ثواب میرے فوت شدہ والدین یا فلاں رشتہ دار یا فلاں بزرگ کو پہنچے تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ نیک عمل ہے اور سنت سے ثابت ہے۔ حرام جانور کی نشانی : (عَنْ أَبِی ثَعْلَبَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) نَہٰی عَنْ أَکْلِ کُلِّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح والصید، باب أکل کل ذی ناب من السباع] ” حضرت ابو ثعلبہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) نے ہر کچلی والے جانور کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔“ مسائل : 1۔ قرآن مجید میں مردار، خون، خنزیر کا گوشت، غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے ہوئے جانور کے ساتھ اور چیزیں بھی حرام ہیں۔ 2۔ حرام چیزوں کا کھانا انتہائی مجبور شخص کے لیے جائز ہے۔ لیکن دوسرے کے لیے حرام ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ 4۔ یہودیوں کی بار بار نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر گائے اور بکری کی چربی بھی حرام کردی گئی۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کا ہر فرمان سچا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت بڑی بے کنار ہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو ٹالنے والا کوئی نہیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں : 1۔ تم پر اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے مردار، خون اور خنزیر کا گوشت۔ (البقرۃ:173) 2۔ سودی کاروبار حرام اور لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھانا حرام ہے۔ (النساء : 160، البقرۃ:275) 3۔ اللہ تعالیٰ نے ظاہر اور پوشیدہ برائی حرام کردی ہے۔ (الاعراف :33) 4۔ کسی جان کا بغیر حق کے قتل کرنا حرام ہے۔ (الاسراء :33) 5۔ یہود پر جانوروں کی چربی حرام کردی گئی۔ (الانعام :146) رحمت خداوندی کی وسعتیں : 1۔ مصائب پر صبر کرنے والوں کے لیے اللہ کی رحمت و بخشش۔ (البقرۃ:156) 2۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپ (ﷺ) لوگوں کے لیے نرم دل ہیں۔ (آل عمران :159) 3۔ آپ (ﷺ) کا رب غنی صاحب رحمت ہے۔ (الانعام :133) 4۔ قرآن مومنین کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (الاسراء :82) 5۔ اللہ کی رحمت نے ہر چیز کو گھیر لیا ہے۔ (الاعراف :156) 6۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے۔ (الدھر :31) 7۔ لوگوں کو اللہ کی رحمت اور فضل پر خوش ہونا چاہیے۔ (یونس :58) 8۔ اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرلیا ہے۔ (الانبیاء :86)