يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا ۖ وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ
پھر اللہ ان سے فرمائے گا :’’اے جنوں اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے ہاں تمہیں میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تمہارے سامنے میری آیات بیان کرتے اور آج کے دن کی ملاقات [١٣٨] سے تمہیں ڈراتے تھے؟‘‘ وہ کہیں گے ’’ہاں ہم اپنے خلاف خود یہ گواہی دیتے ہیں۔‘‘ بات یہ تھی کہ دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں مبتلا کر رکھا تھا لہٰذا وہ اپنے خلاف گواہی دینے پر مجبور ہوں گے کہ فی الواقع وہ (اللہ کی آیات کے) منکر تھے
فہم القرآن : ربط کلام : جہنم میں جانے والے جنات اور انسانوں کو مشترکہ خطاب۔ اللہ تعالیٰ اظہارِ حق اور مجرموں کو ان کے جرائم کا احساس دلانے کے لیے جنوں اور انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے پوچھیں گے کیا میں نے تمھارے پاس تم ہی سے رسول نہیں بھیجے تھے جو تمھیں میرے احکام پڑھ کر سناتے اور اس دن کے ہولناک انجام سے ڈراتے تھے۔ مجرم جواب دیں گے کیوں نہیں ہمارے رب آپ کے بھیجے ہوئے رسول تشریف لائے اور ہمیں سمجھاتے اور ڈراتے رہے لیکن ہمیں دنیا کی زندگی نے فریب میں ڈالے رکھا جس کی وجہ سے ہم تیرے حضور پیشی کو بھول گئے۔ اس طرح وہ اپنے بارے میں شہادت دیں گے کہ بلاشک ہم اپنے کفر کا اقرار کرتے ہیں۔ قیامت کے دن انسانوں کے ساتھ جنوں کو سوال کرنے کے بارے میں مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے جتنے رسول دنیا میں مبعوث کیے گئے وہ سب کے سب انسان ہی تھے مگر ان کا پیغام جنوں اور انسانوں کے لیے مشترکہ ہوا کرتا تھا اس لیے نبی آخر الزمان (ﷺ) نے طائف سے واپسی پر جنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھیں توحید و رسالت کی دعوت دی تھی۔ اس کی تفصیل جاننے کے لیے سورۃ الاحقاف اور سورۃ الجن کی تلاوت کرنی چاہیے۔ اسی بنیاد پر آپ (ﷺ) کا ارشاد ہے۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی بُعِثْتُ إِلَی الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَہُوَ مِنِّی مَسِیْرَۃَ شَہْرٍ وَقِیلَ لِیْ سَلْ تُعْطَہْ وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی فَہِیَ نَائِلَۃٌ مِنْکُمْ إِنْ شَاء اللّٰہُ تَعَالَی مَنْ لَّمْ یُشْرِکْ باللّٰہِ شَیْئًا قَالَ الْأَعْمَشُ فَکَانَ مُجَاہِدٌ یَرٰی أَنَّ الْأَحْمَرَ الْإِنْسُ وَالْأَسْوَدَ الْجِنُّ)[ مسند احمد] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عنایت کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔ 1۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔ 2۔ میرے لیے ساری زمین پاک اور مسجد بنادی گئی ہے۔ 3۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ 4۔ میری رعب سے مدد فرمائی گئی ہے کیونکہ ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود دشمن مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ 5۔ مجھے ( قیامت کے دن) کہا جائے گا مانگ عطا کیا جائے گا اور تیری امت کے حق میں تیری شفاعت قبول کی جائے گی اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوگا اس کو میری شفاعت پہنچے گی۔“ اعمش کہتے ہیں مجاہد کا خیال ہے کہ احمر سے مراد انسان اور اسود سے مراد جن ہیں جہاں تک قیامت کے دن مجرموں کا اپنے خلاف شہادت دینے کا تعلق ہے مجرم پہلے اپنے شرک و کفر اور برے اعمال سے انکار کریں گے۔ جب ان کے خلاف ان کے ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء گواہی دیں گے تو پھر مجبور ہو کر اس کا اعتراف کریں گے۔ اس اعتراف کا قرآن مجید نے کئی مقامات پر ذکر کیا ہے۔ مسائل : 1۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) کی نبوت جنوں اور انسانوں کے لیے تھی۔ 2۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) جنوں اور انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ 3۔ قیامت کے دن مجرم اپنے گناہوں کا خود اعتراف کریں گے۔ تفسیر بالقرآن: جہنمیوں کے اعترافات : 1۔ جہنمیوں سے ملائکہ کا خطاب۔ (الزمر 71، 72) 2۔ جہنمیوں سے جنتیوں کے سوالات اور جہنمیوں کا اپنے گناہوں کا اقرار۔ (المدثر : 40تا48) 3۔ جہنمیوں کے ایک دوسرے سے سوالات۔ (حمٓ، السجدۃ، الاحزاب) 4۔ جہنمیوں سے اللہ تعالیٰ کا سوال۔ (الصٰفٰت) 5۔ جہنمیوں کی باہم گفتگو۔ (الصفت : 27تا33)