سورة الانعام - آیت 91

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ان لوگوں نے اللہ کو ایسے نہیں پہچانا جیسے اسے پہچاننا چاہئے تھا، کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی بشر پر کبھی کچھ نہیں اتارا۔ آپ ان سے پوچھئے : جو کتاب موسیٰ لائے تھے اسے کس نے اتارا [٩٣] تھا ؟ (وہ کتاب) جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی۔ تم نے اسے ورق ورق بنا رکھا ہے۔ ان میں سے کچھ ورق تو ظاہر کرتے ہو اور زیادہ [٩٣۔ ١] چھپا جاتے ہو۔ اور اس کتاب سے تمہیں وہ کچھ سکھایا گیا تھا جو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے آباؤ اجداد۔ آپ کہہ دیجئے کہ ''اسے اللہ ہی نے اتارا تھا'' پھر انہیں چھوڑیئے کہ وہ اپنی فضول بحثوں میں ہی پڑے کھیلتے رہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : توحید سے انحراف، اور نبی (ﷺ) کی بشریت کا انکار کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی ناقدری کرنے کے مترادف ہے۔ انسان جب اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار یا اس کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک بناتا ہے تو پھر وہ بڑے بڑے حقائق ٹھکراتا چلا جاتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت اور آج بھی کفار اور مشرکوں کی یہی حالت ہے کہ وہ نبی (ﷺ) کی رسالت کا یہ کہہ کر انکار کرتے ہیں کہ آپ بشر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر اپنی کتاب نازل نہیں کی۔ مکہ کے لوگ اکثر جاہل تھے وہ اپنی جہالت کی بنا پر کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو بشر کے بجائے کسی فرشتہ کو نبی بنانا چاہیے تھا۔ ان کے مقابلہ میں یہودی عصبیت میں آکر یہ بات کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کسی شخص کو رسول منتخب نہیں کیا۔ بس موسیٰ (علیہ السلام) ہی آخری رسول اور نبی ہیں۔ اسی بنا پر انھوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کی اور اسی وجہ سے وہ نبی رحمت (ﷺ) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں بشر پر نبوت نازل نہیں کی۔ یہ سوچنا اور کہنا اللہ تعالیٰ کی ناقدری کرنے کے مترادف ہے۔ اس ناقدری، عصبیت اور ہٹ دھرمی پر سوال کیا گیا ہے کہ وہ کونسی ہستی ہے جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر کتاب نازل کی جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت کا سرچشمہ تھی۔ جسے تم نے مختلف اوراق میں تبدیل کردیا ہے کچھ حصہ لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہو جبکہ کثیر حصہ تم نے لوگوں سے چھپالیا ہے جسے بہت کم لوگوں کے سامنے ظاہر کرتے ہوحالانکہ اس کتاب میں تمھیں اس تعلیم سے آراستہ کیا گیا جس سے تم اور تمھارے آباو اجداد بے خبر تھے۔ اس سوال میں یہ استفسار بھی موجود ہے کہ بتاؤ موسیٰ بشر نہیں تھے۔ تورات کو مختلف اوراق میں تبدیل کرنے کا یہ بھی مفہوم ہے کہ انھوں نے ذاتی اور گروہی مفادات کے پیش نظر اس کے حصے، بخرے کردیئے تھے۔ جن کو موقع محل کے مطابق لوگوں کے سامنے پیش کرتے۔ اگر مجبوراً کہیں اصل مسئلہ بیان کرنا پڑتا تو اس کی ایسی تاویل کرتے کہ جس کا تورات کے ساتھ دور کا واسطہ نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح جب چاہتے تورات کے احکام کی من مرضی تاویل کردیتے۔ اس صورت حال پر نبی (ﷺ) کو تلقین کی گئی ہے کہ ایسے ناعاقبت اندیش اور ناہنجار لوگوں پر اپنی صلاحیتیں صرف کرنے کے بجائے انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کتاب کا حق چھپانا : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ الْیَہُودَ جَاءُ وا إِلَی رَسُول اللّٰہِ () فَذَکَرُوا لَہُ أَنَّ رَجُلًا مِنْہُمْ وَامْرَأَۃً زَنَیَا فَقَالَ لَہُمْ رَسُول اللّٰہِ () مَا تَجِدُونَ فِی التَّوْرَاۃِ فِی شَأْنِ الرَّجْمِ فَقَالُوا نَفْضَحُہُمْ وَیُجْلَدُونَ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ (رض) کَذَبْتُمْ إِنَّ فیہَا الرَّجْمَ فَأَتَوْا بالتَّوْرَاۃِ فَنَشَرُوہَا فَوَضَعَ أَحَدُہُمْ یَدَہُ عَلٰی آیَۃِ الرَّجْمِ فَقَرَأَ مَا قَبْلَہَا وَمَا بَعْدَہَا فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ (رض) ارْفَعْ یَدَکَ فَرَفَعَ یَدَہُ فَإِذَا فیہَا آیَۃُ الرَّجْمِ فَقَالُوا صَدَقَ یَا مُحَمَّدُ فیہَا آیَۃُ الرَّجْمِ فَأَمَرَ بِہِمَا رَسُول اللّٰہِ () فَرُجِمَا قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فَرَأَیْتُ الرَّجُلَ یَجْنَأُ عَلَی الْمَرْأَۃِ یَقِیہَا الْحِجَارَۃَ۔۔) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُم﴾] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں یہود کے کچھ افراد رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا ایک مرد اور عورت نے زنا کیا ہے رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا رجم کے بارے میں تم تورات میں کیا پاتے ہو ؟ انہوں نے کہا انہیں ذلیل ورسوا کرتے ہوئے پیٹا جائے گا۔ عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا تم لوگ جھوٹ بولتے ہو اس میں تو رجم کا حکم ہے۔ وہ تورات لے کر آئے تو انہوں نے اسے کھولا تو ان میں سے ایک نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھا تو اس نے ان حروف سے پہلے اور بعد کی عبارت پڑھی۔ عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا اس سے ہاتھ اٹھا ئیے۔ اس نے اپنا ہاتھاٹھا یا تو اس جگہ رجم کی آیت تھی تو انہوں نے کہا اے محمد (ﷺ) تو سچا ہے اس میں رجم کے متعلق آیت ہے رسول اللہ (ﷺ) نے ان دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ مرد عورت پر جھک کر اس کو پتھروں سے بچاتا تھا۔“ مسائل : 1۔ قرآن مجید کا انکار کرنے والے درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ناقدری کرتے ہیں۔ 2۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں کے ذریعے تعلیم دی۔ 3۔ تمام الہامی کتابوں کو نازل کرنے والا ایک اللہ ہی ہے۔