أُولَٰئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ۚ فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب بھی دی، قوت فیصلہ بھی اور نبوت بھی۔[٨٩] اگر یہ کافر ان باتوں کا انکار کرتے ہیں (تو پروا نہیں) ہم نے کچھ اور لوگوں کے سپرد [٩٠] یہ خدمت کردی ہے جو ان باتوں کے منکر نہیں
فہم القرآن : (آیت 89 سے 90) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، نبی اکرم (ﷺ) کو ابراہیم (علیہ السلام) اور انکے بعد آ نے والے انبیاء کی دعوت کو پھیلانے اور اس پر قائم رہنے کا حکم۔ عظیم الشان اٹھارہ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کی پاک باز اولاد کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا کہ وہ سب کے سب مواحد، ہدایت یافتہ اور شرک سے سخت اجتناب کرنے والے تھے اگر وہ شرک کا ارتکاب کرتے تو ان کے تمام اعمال ضائع کردیے جاتے۔ شرک سے بچنے کی ہمت اور توحید کی سمجھ انھیں اس لیے نصیب ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کتاب، حکمت اور نبوت سے سرفراز فرمایا تھا۔ جس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس قوم کو کتاب و حکمت اور نبوت کی تعلیم سے آگاہ کرے اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ شرک سے اجتناب کرے اور اللہ کی توحید کا پر چار کرنے والی ہو۔ الحکم سے مراد وہ قوت ہے جس کے ذریعے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ تکمیل پاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس قوم کو اپنی کتاب اور نبوت کی روشنی عطا فرمائے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ حکماً شرک کا قلع قمع اور توحید کا نفاذ کرے۔ یہاں نبی (ﷺ) کو تسلی دینے کے ساتھ خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ اگر آپ کے مخاطبین کفر و شرک کا رویہ اپنائے رکھیں تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے آپ کے مقدر میں ایسے ساتھی رکھ دیے ہیں جو اللہ کی کتاب کا انکار نہیں کرتے۔ دین اور آپ کی ذات پر تن، من دھن قربان کرنے والے ہیں۔ لہٰذا آپ کو پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی اقتدا کرنی چاہیے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ افراد تھے۔ اقتدا سے مراد انبیاء کا اسوۂ مبارکہ ہے جو وہ مخالفین کے مقابلہ میں اختیار کیا کرتے تھے۔ اقتدا میں دوسرا اشارہ یہ ہے تمام انبیا کی دعوت کے بنیادی اصول ایک ہی رہے ہیں۔ جس میں سرفہرست توحید کا اقرار، پرچار اور شرک سے نفرت کا اظہار ہے۔ جس طرح پہلے انبیاء دعوت کے بدلے کوئی اجرت نہیں لیتے تھے۔ آپ بھی ان کی اقتدا میں اعلان کرتے جائیں کہ اے لوگو! میں اس دعوت کے بدلے تم سے کسی مفاد اور اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا۔ میرا کام تو نصیحت کرنا ہے اور یہ قرآن مجید پورے عالم کے لیے ذکر اور نصیحت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) مَا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ نَبِیٌّ إِلَّا أُعْطِیَ مَا مِثْلہُ آمَنَ عَلَیْہِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا کَانَ الَّذِی أُوتِیتُ وَحْیًا أَوْحَاہ اللَّہُ إِلَیَّ فَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَکْثَرَہُمْ تَابِعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب فضائل القران، باب کیف نزل الوحی] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا انبیاء کرام میں سے ہر نبی کو ایسی چیزیں دی گئی ہیں جس پر لوگ ایمان لے آئیں مجھے وحی عنایت کی گئی اس میں اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا میں امید کرتا ہوں قیامت کے دن میری پیروی کرنے والے سب سے زیادہ ہوں گئے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہ السلام) کو خصوصی حکمت سے نوازا۔ 2۔ لوگوں کو نبی اکرم (ﷺ) کے طریقہ کی ہی پیروی کرنی چاہیے۔ 3۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) دعوت دین کے بدلے کسی سے معاوضہ طلب نہیں کرتے تھے۔ 4۔ قرآن مجید تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء (علیہ السلام) کسی سے اجرت نہیں لیتے تھے : 1۔ (حضرت نوح (علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا۔ میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء :109) 2۔ (حضرت ھود علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء :127) 3۔ (حضرت صالح (علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء : 141تا145) 4۔ (حضرت لوط (علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء :164) 5۔ (حضرت شعیب (علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء :180) 6۔ نہیں ہے میرا اجر مگر اللہ پر اور وہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ (السباء :47) 7۔ (حضرت ھود علیہ السلام) نہیں ہے میرا اجر مگر اللہ پر جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ (ھود :51) 8۔ (اے محمد (ﷺ) !) کہہ دیجیے میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتانہ ہی میں متکلف ہوں۔ (صٓ:86)