وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ گنتی کے چند ایام کے سوا انہیں دوزخ کی آگ ہرگز نہ چھوئے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھئے کہ کیا تم نے اللہ سے کوئی ایسا عہد [٩٤] لے رکھا ہے جس کی وہ خلاف ورزی نہ کرے گا ؟ یا تم اللہ پر ایسی باتیں جڑ دیتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں؟
فہم القرآن : ربط کلام : نبی اکرم {ﷺ}کے زمانے میں اہل کتاب خود ساختہ عقائد کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے تھے اور آج ان کا دعوٰی ہے کہ ہم گنتی کے چند دن جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ اس کے بعد جنت ہماری اور ہم جنت کے وارث ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک‘ نبی آخر الزماں {ﷺ}کی نبوت کا انکار اور بھاری جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود یہودیوں کی خوش فہمیوں کی انتہا یہ تھی اور ہے کہ وہ بڑی بے باکی کے ساتھ تورات کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہونے کے ناطے سے ہم جہنم میں نہیں جا سکتے۔ سوائے ان چند دنوں کے جن دنوں میں ہمارے بزرگوں نے بچھڑا پوجنے کی غلطی کی تھی۔ اس دعویٰ کی قلعی کھولنے کے لیے ان سے سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد لے رکھا ہے کہ جس کی خلاف ورزی کی اللہ تعالیٰ سے توقع نہیں کی جا سکتی؟ اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو تو تمہیں کوئی ثبوت پیش کرنا چاہیے۔ درحقیقت یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بے بنیاد اور جہالت کی بات کرتے ہیں۔ فرقہ پرستی کے مضمرات میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ ہمارے بعض علماء اور مشائخ نے اس سے دو قدم آگے بڑھ کر اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں میں یہ تاثر پیدا کر رکھا ہے کہ جنت میں جانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کسی پیر کا مرید یا کسی امام کا مقلد ہوجائے۔ حالانکہ اس نظریہ کی دلیل قرآن وسنت میں نہیں پائی جاتی۔ مسائل : 1۔ یہودیوں کا عقیدہ شرعی حقائق کے منافی اور عدل و انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ 2۔ من گھڑت دینی مسائل اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہیں۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن کا معاملہ : 1۔ ہر ایک کو اس کے اپنے اعمال کام آئیں گے۔ (البقرۃ:134) 2۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام :164) 3۔ کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ (فاطر :43) 4۔ کسی کے گناہ کے متعلق کسی دوسرے سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ( الرحمن :39)