قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
آپ ان سے پوچھئے کہ : بحر و بر کی تاریکیوں میں پیش آنے والے خطرات سے تمہیں کون نجات دیتا ہے؟ جسے تم عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے پکارتے ہو کہ اگر اس نے ہمیں (اس مصیبت سے) نجات دے دی تو ہم [٧٠] ضرور اس کے شکر گزار ہوں گے
فہم القرآن : (آیت 63 سے 64) ربط کلام : اللہ صرف دنیا میں ہی نہیں بلکہ انسانوں کی موت و حیات پر قادر، حاکم مطلق اور مولیٰ حق ہے گو اس نے ہدایت کا جبری نظام نہیں بنایا لیکن تم اس کی قدرتیں دیکھو اور ان پر غور کرو۔ آسانی اور خوشحالی میں اسی کو پکارو جس کو تم مشکل اور اضطراری حالت میں پکارتے اور اس کے مشکل کشا ہونے کا اقرار کرتے ہو۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی گئی ہے کہ مشرک اور موحد میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مشرک اور کافر صرف مشکل کے وقت اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں۔ جب مشکل ٹل جاتی ہے تو پھر اس کے ساتھ دوسروں کو پکارنا شروع کردیتے ہیں۔ ان کے برعکس موحد کی یہ شان ہے کہ وہ عسر و یسر، آسانی اور پریشانی میں صرف اور صرف اپنے رب کو پکارتا ہے اور یہی فطرت سلیم کا تقاضا ہے، مشکل اور پریشانی کے وقت مشرک کے دل و دماغ پر غفلت کے پردے اٹھ جاتے ہیں۔ اس وقت اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مشکل کشا دکھائی اور سجھائی نہیں دیتا۔ مشرک انتہائی مشکل میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ بڑی آہ و زاری کے ساتھ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کو صداؤں پر صدائیں دے رہے ہوتے ہیں اور اپنے دل ہی دل میں یہ عہد کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت سے نجات بخشی تو ہم اس کے شکر گزار بندے بنیں گے۔ لیکن جونہی وہ اس کرب ناک مصیبت سے نجات پاتے ہیں تو پھر اس مشکل کشائی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرلیتے ہیں۔ یہاں شکر کرنے سے مراد توحید کا اقرار کرنا ہے اور بحر و بر کی ظلمات سے مراد بادل اور رات کے اندھیروں کے ساتھ صحراؤں کے گرد و غبار اور سمندر کی موجوں اور تہوں کے اندھیرے ہیں۔ ﴿فَإِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجَّاہُمْ إِلَی الْبَرِّ إِذَا ہُمْ یُشْرِکُوْنَ﴾[ العنکبوت :65] ” پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے خالصتاً اسے ہی پکارتے ہیں۔ اور جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو اس کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی بحر و بر کی مشکلات سے نجات نہیں دے سکتا۔ 2۔ مصیبت سے نکلنے کے بعد خصوصاً اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ 3۔ عقیدہ توحید پر قائم رہنے کے ساتھ شرک سے نفرت کرنا بھی لازم ہے۔ تفسیر بالقرآن : خشکی اور تری میں اللہ ہی نجات دینے والا ہے : 1۔ جب تمھیں خشکی کی طرف نجات مل جاتی ہے تو اس سے اعراض کرتے ہو۔ (الاسراء :67) 2۔ جب ہم انھیں خشکی کی طرف نجات دیتے ہیں تو وہ شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔ (العنکبوت :65) 3۔ وہ اللہ کو خالص پکارتے ہیں جب انھیں خشکی کی طرف نجات ملتی ہے۔ (لقمان :32) 4۔ ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے اور نافرمانی سے بچتے رہے۔ (حٰم السجدۃ:18) 5۔ جب ان پر سائبان جیسی کوئی موج چھا جاتی ہے تو اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خالصاً اسے پکارتے ہیں پھر جب انھیں بچا کر خشکی تک لے آتا ہے تو پھر کچھ بد اعتدال ہوجاتے ہیں۔ (لقمان :32) مشرک نجات پانے کے بعد شرک کرتا ہے : 1۔ جب ہم انھیں نجات دیتے ہیں تو وہ بغیر حق کے زمین میں بغاوت کرتے ہیں۔ (یونس :23) 2۔ جب ہم انھیں نجات دیتے ہیں تو بعد میں وہ شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔ ( العنکبوت :65) 3۔ آپ فرما دیں اللہ تمھیں اس سے اور ہر مصیبت سے نجات دیتا ہے اور تم شرک کرتے ہو۔ (الانعام :64)