قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ
آپ کہیے کہ : میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں
فہم القرآن: (آیت 1 سے 6) ربط سورت : اللہ تعالیٰ نے سورت الفلق میں اپنا تعارف رب الفلق کے نام سے کروایا ہے جس کا معنٰی ہے کہ مخلوق کو پھاڑنے کے عمل سے عدم سے وجود میں لانے والا ہے۔ سورت النّاس میں یہ بتلایا ہے کہ وہی انسانوں کا ” رب، حقیقی بادشاہ اور معبود برحق ہے اس لیے اس کی مخلوق بالخصوص جنوں اور انسانوں کی شر سے بچنے کے لیے اس کی پناہ طلب کرنی چاہیے۔ سورت النّاس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی عظیم اور بابرکت کتاب کا اختتام فرمایا ہے۔ گویا کہ یہ قرآن مجید کی آ خری سورت ہے۔ سورت فاتحہ کا آغاز رب العالمین کے الفاظ سے ہوا اور قرآن مجید کا اختتام ﴿مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ﴾پر ہوا ہے۔ یہ الفاظ استعمال فرماکر اشارہ کیا ہے کہ قرآن مجید جنوں اور انسانوں کے لیے نازل کیا گیا ہے کیونکہ مخلوقات میں جن اور انسان ہی ایسی مخلوق ہیں جنہیں احکام کا پابند بنایا گیا ہے۔ اس لیے النّاس پر قرآن مجید، فرقان حمید کا اختتام فرما کر بتایا ہے کہ تمام مخلوقات میں انسان اور جن ہی ایسی مخلوق ہیں جو سب سے اعلیٰ اور ارفع ہے بشرطیکہ یہ شیطان کی شیطنت اور اپنے نفس کی شرارت سے بچ کر رہیں۔ سورت الفلق میں پوری مخلوق میں سے ان چیزوں کی شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا جن سے انسان کو نقصان پہنچنے کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔ سورت النّاس میں اس سے پناہ مانگنے کا حکم ہے جو ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے اور انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورت النّاس کی پہلی تین آیات میں اپنی ان تین صفات کا ذکر کیا ہے جو اس کی ساری صفات کی ترجمان ہیں۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ جو ” رب“ مخلوق کو پیدا کرنے اور اس کی ضرورتیں پوری کرنے والاہے اسی کو حقیقی مالک اور معبود برحق ماننا چاہیے۔ یہاں ” رب“ کی صفت کے ساتھ النّاس کا لفظ لایا گیا ہے جس میں انسانوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ اے لوگو! جو تمہارا حقیقی پالنہار اور ہمیشہ ہمیش کا مالک ہے وہی تمہارا ” الٰہ“ ہے لہٰذا اس حقیقی ” الٰہ“ پر ایمان لاؤ اور اسی کا حکم مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو یہی انبیائے کرام (علیہ السلام) اور قرآن مجید کی مرکزی دعوت ہے اور اسی کے لیے ہی تمہیں پیدا کیا گیا ہے۔ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن﴾ (الذاریات :56) ” میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔“ اس دعوت اور عبادت کے ساتھ شیطان جنوں اور شیطان انسانوں کو سب سے زیادہ دشمنی ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ ” رب“ کے بندوں کو اس کی عبادت اور اطاعت سے ہٹا کر دوسروں کی عبادت اور اطاعت پر لگادیا جائے۔ اس کے لیے شیطان جن اور شیطان صفت انسان ہر وقت کوشاں اور سازشیں کرتے رہتے ہیں، شیطانوں کی مذموم کوشش کا آغاز وسوسہ سے ہوتا ہے۔ وسوسہ کا معنٰی دل میں برے خیال کا پیدا ہونا ہے۔ اسی لیے شیطان کے لیے ” خَنَّاسِ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔” خَنَّاسِ“ کے مفسرین نے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔ دلوں میں چھپ کر وسوسے ڈالنے والا اور بار بار پیچھے ہٹ کر آنے والایہ دونوں عادتیں شیطان کی سرشت میں شامل ہیں۔ چاہے وہ جنوں سے تعلق رکھنے والا ہو یا کسی انسان نے شیطان کا روپ دھار لیا ہو۔ یادرہے! کہ نسلی طور پر شیطان جنوں سے ہے۔ (الکھف : 50، الحجر :27) شیطان کی شیطنت کا آغاز وسوسوں سے ہوتا ہے اور ہر برائی وسوسے سے جنم لیتی ہے، اگر انسان برے خیال پر قابو پالے تو وہ برائی سے بچ سکتا ہے، اگر برے خیال کو دل میں پنپنے کا موقع دے تو بالآخر انسان اس برائی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے کی مہلت دی ہے جس کا اس نے بارگاہ ایزدی میں یوں اظہار کیا تھا۔ اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان اپنے رب کی پناہ طلب کرتارہے۔ (فصلت :36) ﴿قَالَ اَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَ مِنْ خَلْفِہِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِہِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِہِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ قَالَ اخْرُجْ مِنْہَا مَذْءُ وْمًا مَّدْحُوْرًا لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنْکُمْ اَجْمَعِیْنَ﴾ (الاعراف : 14تا18) ” اس نے کہا مجھے اس دن تک مہلت دے جب وہ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا بے شک تو مہلت دیے جانے والوں سے ہے۔ اس نے کہا جس وجہ سے تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔ پھر میں ہر صورت ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے آؤں گا۔ تو ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔ فرمایا اس سے نکل جا، ذلیل ہوکر، دھتکارا ہوا، بے شک ان میں سے جوتیرے پیچھے چلے گا میں تم سب سے ضرور جہنم کو بھروں گا۔“ (عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ۔ أَنَ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ۔۔إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ۔۔) (رواہ البخاری : کتاب الإعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ زوجھا فی اعتکافہ ) ” حضرت علی بن حسین (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا یقیناً شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ کَبَّرَ ثُمَّ یَقُوْلُ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلاآإِلَہَ غَیْرُکَ ثُمَّ یَقُوْلُ لاآإِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ثَلاَثًا ثُمَّ یَقُول اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا ثَلاَثًا أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ) (رواہ ابو داود : باب مَنْ رَأَی الاِسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں جب رات کو رسول اللہ (ﷺ) قیام کرتے تو اللہ اکبر کہتے پھریہ دعاپڑھتے اے اللہ ! تو پاک ہے۔ میں تیری تعریف بیان کرتاہوں نام تیرا بابرکت ہے اور تیری شان بلند وبالا ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر تین بار ” لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللَّہُ“ کہتے پھر تین بار اللہ اکبر کہتے۔ اس کے بعد یہ پڑھتے اللہ کے نام کے ساتھ جو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ میں شیطان مردود کے وسوسہ، تکبر، غرور اور اس کی چھیڑ چھاڑ سے پناہ طلب کرتا ہوں۔“ (عَنْ عَآئِشَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) کَانَ اِذَا اَوٰی اِلٰی فِرَاشِہٖ کُلَّ لَیْلَۃٍ جَمَعَ کَفَّیْہِ ثُمَّ نَفَثَ فِیْھِمَا فَقَرَأَ فِیْھِمَا ﴿قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ﴾ وَ ﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ وَ ﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ ثُمَّ یَمْسَحُ بِھِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِہٖ یَفْعَلُ ذٰالِکَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ۔ جَسَدِہٖ یَبْدَأُ بِھِمَا عَلٰی رَأْسِہٖ وَوَجْھِہٖ وَمَا اَقْبَلَ مِنْ جَسَدِہٖ یَفْعَلُ ذٰالِکَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ۔) (رواہ مسلم : باب فضل ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں نبی کریم (ﷺ) رات کو اپنے بستر پر سونے کے لیے جاتے تو سورۃ الاخلاص، الفلق اور النّاس تلاوت کرکے اپنے دونوں ہاتھوں میں پھونک کر جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیرتے۔ آغاز سر، چہرے اور جسم کے سامنے والے حصے سے کرتے ہوئے یہ عمل تین بار کرتے۔“ سورۃ الفلق اور النّاس میں اللہ تعالیٰ نے اپنا اسم ” اللہ“ استعمال کرنے کی بجائے بار بار ” رب“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اسم ” اللہ“ میں جلالت اور دبدبہ پایا جاتا ہے۔ ” رب“ کے لفظ میں بندے کو اپنے رب کی قربت اور شفقت کا احساس ہوتا ہے۔ اس قربت اور شفقت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے رب سے یوں دعا کرے کہ اے میرے رب! تو داتا ہے اور میں فقیر ہوں، تو طاقتور ہے اور میں ضعیف ہوں، تو پناہ دینے والا ہے اور میں پناہ کا طالب ہوں اس لیے میری عاجزانہ التجا ہے کہ مجھے ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے اپنی مخلوق بالخصوص شیطان جنوں اور انسانوں کی شر سے محفوظ فرمائے رکھنا۔ آمین یا رب العالمین! مسائل: 1۔ آدمی کو شیطان جنوں اور انسانوں سے ہر وقت اپنے رب کی پناہ طلب کرتے رہنا چاہیے۔ 2۔ ( علیہ السلام) ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ لوگوں کا رب، بادشاہ اور معبود برحق ہے۔ 3۔ شیطان لوگوں کے دلوں میں باربار وسوسے ڈالتا ہے۔ 4۔ جنوں اور انسانوں میں شیطان ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: الٰہ کا معنٰی اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت : 1۔ الٰہ کا معنٰی معبود وہ ایک ہی ہے۔ ( البقرۃ:163) 2۔ الٰہ کا معنٰی مشکل کشا، حاجت روا۔ ( المؤمن :65) 3۔ اللہ تمھارا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام :102) 4۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ الٰہ ایک ہی ہے (النحل :51) 5۔ الٰہ تمھارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ :98) 6۔ کیا اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے؟ اللہ تعالیٰ شراکت داری سے پاک ہے۔ (الطور :43) 7۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو مجھے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (ہود :2) 8۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی اور شیاطین کی عبادت نہ کرو۔ (المومنون :23) 9۔ حضرت ہود علیہ السلامنے ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ اور غیر اللہ کی عبادت سے روکا۔ (الاعراف :65) 10۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے ایک اللہ کی عبادت کے لیے بلایا اور ماسوائے اللہ کے دوسروں کی عبادت کو شیطان کی عبادت قرار دیا۔ (الاعراف :73) 11۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت سے منع کیا۔ (ہود :84) 12۔ تمام امتوں کی طرف رسول بھیجے گئے اور سبھی نے ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ (النمل :36)