قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ
آپ کہیے کہ : میں صبح کے پروردگار سے [١] پناہ مانگتا [٢] ہوں
فہم القرآن: (آیت 1 سے 5) ربط سورت : الاخلاص میں یہ بتایا گیا ہے کہ ” اللہ“ وہ ہے جو ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک ہے، کوئی کسی اعتبار اور کسی درجے میں اس کی برابری نہیں کرسکتا، گویا کہ وہ حاکم مطلق ہے باقی محکوم ہیں، وہ بادشاہ ہے باقی اس کے در کے فقیر ہیں، وہ طاقتور ہے ہر کوئی اس کے سامنے عاجز اور بے بس ہے کیونکہ وہ طاقتور اور بادشاہ ہے اس لیے اسی کی پناہ طلب کرنی چاہیے۔ عقیدۂ توحید کے تقاضوں میں اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ صرف ایک ” اللہ“ جو پوری مخلوق کا رب ہے اسی کو نفع ونقصان کا مالک سمجھا جائے اس لیے نبی اکرم (ﷺ) کو حکم ہوا ہے کہ آپ ان الفاظ میں اپنے رب کی پناہ طلب کیا کریں کہ میں صبح کے رب کی پناہ مانگتا ہوں اور ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔ رات کے اندھیرے کے شر سے جب وہ ہر چیز پر چھا جاتا ہے اور گرہوں میں پھونکیں مارنے والی عورتوں کے شر سے اور حاسد کے حسد سے جب وہ حسد کرتا ہے۔ نبی (ﷺ) کو ” قُلْ“ کا حکم دے کر یہ بات واضح کی گئی ہے کہ اللہ کے رسول بھی اپنے رب کی حفاظت اور نگرانی کے محتاج تھے جس طرح دوسرے انسان اور مخلوق اپنے رب کی حفاظت کی محتاج ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مخلوق کو پناہ دینے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے وہ پناہ نہ دے تو کسی کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے، وہی جن وانس اور پوری مخلوق کو پیدا کرنے اور پناہ دینے والا ہے۔ ” ربِّ الْفَلَقْ“ کا معنٰی ہے پھاڑنے والا۔” ربِّ الْفَلَقْ“ کی صفت لانے کی دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں ” رب“ وہ ذات ہے جو غم اور خوف کے پردے چاک کرتا اور ہرقسم کی مشکلات دور فرما کر اپنے بندے کی حفاظت کرتا ہے۔2۔ وہی ہے جس نے ہر چیز کا آغاز پھاڑنے کے عمل سے کیا ہے۔ انسان اور چوپائے کا بچہ رحم مادر اور جانور کا بچہ انڈے کو پھاڑ کر نکلتا ہے، نباتات زمین کے سینے کو چیر کر نکلتی ہیں، بارش بادلوں کو پھاڑ کر نازل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بھی ایک دوسرے سے پھاڑ کر الگ کیا ہے۔ ( الانبیاء :30) اور قیامت کے دن مردے بھی زمین کے پھٹنے سے باہر نکلیں گے : ﴿اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰی یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ۔ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ وَ جَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ حُسْبَانًا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ﴾ (الانعام : 95، 96) ” بے شک اللہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے یہی اللہ ہے پھرتم کہاں بہکائے جاتے ہو؟ صبح کو نکالنے والا ہے اور اس نے رات کو آرام اور سورج اور چاند کو حساب کاذریعہ بنایا یہ نہایت غالب، اور سب کچھ جاننے والے کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔“ رب ” اللہ“ کی وہ صفت اور نام ہے جس کا پہلی وحی میں یوں تعارف کروایا گیا۔ ﴿اِقْرَاْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾ (العلق :1) ” اس رب کے نام سے پڑھیں جس نے انسان کو خون کے ایک لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔“ یہی وہ صفت ہے جسے الفاتحہ کی ابتدا میں رکھا گیا ہے گویا کہ قرآن کی ابتدا اور انتہاء اسی صفت پر ہو رہی ہے حقیقت یہ ہے کہ جس نے اپنے رب کو پہچان لیا وہ اپنے رب کا باغی نہیں ہو سکتا۔ پھاڑنے کی حقیقی قوت صرف ایک ” رب“ کے پاس ہے۔ اس لیے انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ ہر دم اپنے رب کی پناہ طلب کیا کرے۔ ” عُوْذٌ“ چوپائے کے اس بچے کو کہتے ہیں جسے رحم مادر سے نکلنے کے بعد چلنے میں دشواری پیش آتی ہے، اس وجہ سے وہ لڑکھڑاکر گرتا اور اٹھتا ہے۔ ” عُوْذٌ“ کا لفظ لا کر یہ بتلا یا ہے کہ اے انسان! تو شیطان اور مخلوق کی شر کے مقابلے میں اس طرح ہی کمزور ہے جس طرح چوپائے کا بچہ پیدا ہونے کے وقت لاغر اور کمزور ہوتا ہے۔ شر کی نسبت مخلوق کی طرف اس لیے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان سمیت جو بھی چیز پیدا کی ہے اس میں منفی اور مثبت صلاحیتیں رکھی ہیں۔ ان الفاظ میں یہ اشارہ ہے کہ انسان کو مخلوق کی مثبت صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاناچ اہیے اور اس کے شر سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے رب سے اس یقین کے ساتھ پناہ طلب کرنی ہے کہ کوئی چیز بذات خود نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان دے سکتی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے اس عقیدہ کی یوں ترجمانی فرمائی تھی : (عَنْ عَابِسِ ابْنِ رَبِیْعَۃَ (رض) قَالَ رَاَیْتُ عُمَرَ یُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَیَقُوْلُ اِنِّیْ لَاَ عْلَمُ اَنَّکَ حَجَرٌ مَّا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ وَلَوْلَا اَنِّیْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یُقَبِّلُ مَا قَبَّلْتُکَ) (رواہ البخاری : باب ما ذکر فی الحجر الاسود) ” حضرت عابس بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں میں نے حضرت عمر (رض) کو حجراسود چومتے دیکھا اور فرماتے ہوئے سُنا اے حجر اسود میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ تو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان دے سکتا ہے، اگر میں نے رسول اکرم (ﷺ) کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے بوسہ نہ دیتا۔“ توحید کا عقیدہ اس قدر سادہ اور واضح ہونے کے باوجود شرک کرنے والوں کی حالت یہ ہے کہ وہ فوت شدگان اور مزارات ہی سے نہیں بلکہ بعض لوگ مزارات پر لگے ہوئے جھنڈوں اور مٹی کو بھی اپنے لیے برکت اور پناہ کا باعث سمجھتے ہیں، کچھ لوگوں نے پنج تن پاک کے نام پر اپنے مکانوں پر پنجے لگا رکھے ہیں کہ ان کی وجہ سے انہیں حفاظت اور برکت حاصل ہوتی ہے، یہاں تک کہ کمزور عقیدہ لوگ ہاتھ میں مخصوص کڑے پہنتے ہیں اور انگوٹھی کے نگینے کے لیے خاص قسم کے پتھر تلاش کرتے ہیں۔ یہ سب شیطان کے بہکانے کا نتیجہ ہے کہ جو ہر نیکی کے کام میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور انسان کو ہر قسم کی برائی کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے عوذ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) اپنی اکثر دعاؤں کو اعوذ سے شروع کرتے تھے۔ یہاں شیطان اور پوری مخلوق کے شر سے ” اللہ“ کے حضور پناہ مانگنے کے بعد ان مخصوص چیزوں کے شر سے بھی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جن سے انسان کو دوسری چیزوں کی نسبت نقصان پہنچنے کا جلد اندیشہ ہوتا ہے ان میں رات کا اندھیرا بھی شامل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اندھیرے کے فوائد بھی ہیں لیکن اس میں شر بھی مضمر ہوتی ہے۔ ڈاکو اور چوراندھیرے میں ہی دوسرے کا گھر لوٹنے کے لیے دلیر ہوتے ہیں، کیڑے مکوڑے بھی رات کو نکلتے ہیں جادوگر بھی اندھیرے کو پسند کرتے ہیں اس لیے جادو، ٹونا کرنے والے کالے کپڑے پہنتے ہیں اور تاریک کمرے میں بیٹھ کر شیطانی عمل کرتے ہیں۔ شیطانی عمل کرنے والوں میں وہ عورتیں سب سے زیادہ لوگوں کے عقائد اور مال و جان کو نقصان پہنچاتی ہیں جو جادو کے ذریعے گرہوں میں پھونکیں مارتی ہیں۔ ٹونا، جادو کرنے والوں کے ساتھ وہ لوگ بھی معاشرے کا ناسور ہیں جو حسد کی وجہ سے دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں : (عَنْ جَابِرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِذَا کَانَ جُنْحُ اللَّیْلِ اَوْ اَمْسَیْتُمْ فَکُفُّوْا صِبْیَانَکُمْ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْتَشِرُ حِیْنَئِذٍ فَاِذَا ذَھَبَ سَاعَۃٌ مِّنَ اللَّیْلِ فَخَلُّوْھُمْ وَاَغْلِقُوا لْاَبْوَابَ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا وَاَوْکُوْا قِرَبَکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ وَخَمِّرُوْا اٰنِیَتَکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ وَلَوْ اَنْ تُعْرِضُوْا عَلَیْہِ شَیْئًا وَاطْفِئُوْا مَصَابِیْحَکُمْ) (رواہ البخاری : باب خیر مال المسلم غنم یتبع بہا شعف الجبال) ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : جب رات چھا جائے، یا مغرب ہوجائے، تو اپنے بچوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکو، کیونکہ اس وقت شیطان گھومنے پھرنے لگ جاتے ہیں۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر جائے تو اپنے بچوں کو آزاد کردو، دروازے بند رکھو اور انہیں بند کرتے وقت بسم اللہ پڑھو‘ کیونکہ شیطان بند دروازے نہیں کھولتا۔ بسم اللہ پڑھ کر مشکیزے کے منہ پر رسی باندھا کرو، اور اپنے برتنوں کو بسم اللہ پڑھ کر ڈھانپا کرو‘ اگرچہ ان پر کوئی معمولی چیز ہی کیوں نہ رکھی جائے، نیز سوتے وقت چراغوں کو بجھا دیا کرو۔“ حسد : حسد ایسا مرض ہے کہ جو شخص اس میں مبتلا ہوجائے وہ حسد کی وجہ سے کسی کی عزت وتکریم کو برداشت نہیں کرتا، بسا اوقات یہ بیماری اس قدر خطرناک صورت اختیار کرجاتی ہے کہ حاسد کو اپنی عزت کا بھی خیال نہیں رہتا۔ اس لیے ایسے شخص کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ) (رواہ ابوداؤد : کتاب الادب، باب فی الحسد) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا : حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیاں کھا جاتی ہے۔“ حسد کا علاج : ﴿وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ للرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ للنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا﴾ (النساء :32) ” اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ نے تمہیں ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ مردوں کا اس میں حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور اللہ سے اس کا فضل مانگتے رہو یقیناً اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔“ جادو : عربی لغت کے لحاظ سے سحر کے کئی معانی بیان کیے گئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسا کلام یا عمل جس کے ذریعے شیطان کی قربت یامدد حاصل کی جائے، جادو کا علم سیکھنا کفر ہے اس لیے اس سے منع کیا گیا ہے۔ جادو کفر یہ‘ شرکیہ‘ اوٹ پٹانگ الفاظ یا جس طریقے سے بھی کیا جائے وہ کفر ہے : ﴿وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْ ایُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ﴾ (البقرۃ:102) ” سلیمان نے کفر نہیں کیا لیکن کفر تو شیطان کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے۔“ نبی (ﷺ) کا فرمان : (لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ) (الترغیب والترہیب) ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے، کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے، کوئی خود جادوگر ہو یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں، جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (ﷺ) پر نازل کی گئی ہے۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ سُحِرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) حَتّٰی اِنَّہٗ لَیُخَیَّلُ اِلَیْہِ فَعَلَ الشَّیْئَ وَمَا فَعَلَہٗ حَتّٰی اِذَا کَانَ ذَاتَ یَوْمٍ عِنْدِیْ دَعَااللّٰہَ وَدَعَاہُ ثُمَّ قَالَ اَشَعَرْتِ یَاعَائِشَۃُ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَفْتَانِیْ فِیْمَا اسْتَفْتَیْتُہٗ جَاءَ نِیْ رَجُلَانِ جَلَسَ اَحَدُھُمَا عِنْدَ رَاْسِیْ وَالْاٰخَرُ عِنْدَ رِجْلِیْ ثُمَّ قَالَ اَحَدُھُمَا لِصَاحِبِہٖ مَا وَجْعُ الرَّجُلِ قَالَ مَطْبُوْبٌ قَالَ وَمَنْ طَبَّہٗ قَالَ لَبِیْدُ ابْنُ الْاَعْصَمِ الْیَھُوْدِیُّ قَالَ فِیْمَاذَا قَالَ فِیْ مُشْطٍ وَّمُشَاطَۃٍ وَّجُفِّ طَلْعَۃٍ ذَکَرٍ قَالَ فَاَیْنَ ھُوَ قَالَ فِیْ بِئْرِ ذِیْ اَرْوَانَ فَذَھَبَ النَّبِیُّ (ﷺ) فِیْ اُنَاسٍ مِّنْ اَصْحَابِہٖ اِلَی الْبِئْرِ فَقَالَ ھٰذِہِ الْبِئْرُ الَّتِیْ اُرِیْتُھَا وَکَأَنَّ مَاءَ ھَا نُقَاعَۃُ الْحِنَّاءِ وَکَأَنَّ نَخْلَھَا رُءُ وْسُ الشَّیاَطِیْنِ فَاسْتَخْرَجَہٗ۔) (رواہ البخاری : باب السحر) ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) پر جادو کیا گیا آپ سوچتے کہ میں نے فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا۔ ایک دن آپ میرے پاس تھے، فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور پھر بتلایا اے عائشہ ! کیا تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے میں نے جس چیز کی استدعا کی تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی مجھے خبر دے دی ہے، میرے پاس دو فرشتے آئے ان میں سے ایک میرے سر کی طرف بیٹھ گیا اور دوسرا میرے پاؤں کی طرف بیٹھا، ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے پوچھا اس شخص کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے جواب دیا، اس پر جادو کیا گیا ہے، پہلے نے پوچھا آپ پر کس نے جادو کیا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا لبیدبن اعصم یہودی نے، پہلے نے پوچھا کس چیز میں جادو کیا گیا ہے؟ دوسرے نے بتایا کہ کنگھی اور کنگھی میں پھنسے ہوئے بالوں اور نر کھجور کے خوشے کی جڑ میں، پہلے نے پوچھا وہ کہاں ہے ؟ دوسرے نے بتایا ذی اروان نامی کنویں میں ہے۔ نبی (ﷺ) چند صحابہ کے ساتھ اس کنویں پر گئے اور آپ نے فرمایا : یہی وہ کنواں ہے، جو مجھے دکھایا گیا تھا۔ اس کا پانی مہندی کے رنگ جیسا تھا اور اس کے پاس جو کھجوریں تھیں وہ شیاطین کے سروں کی مانند تھیں، آپ نے جادو کی ہوئی چیزوں کو نکلوایا اور اس کے بعد آپ ٹھیک ہوگئے۔“ ” حضرت عائشہ (رض) کا فرمان ہے کہ اس کنویں کے درختوں سے بھی خوف محسوس ہوتا تھا۔ جب وہ پتلا وہاں سے نکالا گیا توحضرت جبرائیل امین تشریف لائے تو انہوں نے بالوں کی گرہیں کھولنے اور جادو کے اثرات ختم کرنے کے لیے فرمایا آپ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی ایک ایک آیت پڑھتے جائیں یہ گیارہ آیات ہیں اس طرح گیارہ گرہیں کھولتے ہوئے سوئیاں نکال دی جائیں آپ کی نگرانی میں صحابہ کرام (رض) نے ایسا کیا تو آپ (ﷺ) کی طبیعت اس طرح ہشاش بشاش ہوگئی جس طرح کسی جکڑے ہوئے انسان کو کھول دیا جائے اس کے بعدآپ (ﷺ) کا معمول تھا کہ رات سوتے وقت ان سورتوں کی تلاوت کر کے جہاں تک آپ (ﷺ) کے ہاتھ پہنچتے اپنے آپ کو دم کیا کرتے تھے جس کی تفصیل معوذتین کے باب میں بیان کی جائے گی۔“ (صحیح بخاری : کتاب الطب، باب السحر) اس واقعہ پر ہونے والے اعتراضات اور ان کے جوابات : غیرمسلم اور منکرین حدیث اس واقعہ پر اعتراضات کرتے ہوتے ہوئے درج ذیل سوالات اور شبہات پیدا کرتے ہیں : نبی (ﷺ) پر جادو کے اثرات تسلیم کرلیے جائیں تو کفار کے اس اعتراض کا جواب دینا مشکل ہوگا : ﴿وَقَال الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسْحُوْرًا۔﴾ (الفرقان :8) ” اور ظالموں نے کہا کہ تم صرف ایک جادو زدہ آدمی کی پیروی کرتے ہو۔“ 1۔ اہل مکہ نے آپ (ﷺ) پر جادو ہونے کا الزام نبوت کے ابتدائی دور میں لگایا تھا یہ واقعہ مدینہ طیبہ میں صلح حدیبیہ کے بعد نبوت کے بیسویں سال پیش آیا یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی شخص نے اپنی تائید کے لیے اس اہل مکہ کے الزام کو ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا۔ 2۔ نبی پر جادو ہونا ناممکن نہیں کیونکہ آپ اپنی زندگی میں بیمار ہوئے اور غزوہ احد میں زخمی بھی ہوئے تھے بحیثیت انسان زندگی میں آپ کو کئی پریشانیاں اور جسمانی تکلفیں بھی اٹھانا پڑیں لہٰذا آپ پر جادو کا اثر انداز ہونا خلاف عقل نہیں ہے۔ 3۔ جادو کے اثرات نبوت کے امور پر اثر انداز نہیں ہوئے تھے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کی ذمہ داری کا ذمّہ لیا ہوا ہے۔ (القیامہ :19) یہی وجہ ہے کہ اس تکلیف کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ (ﷺ) نے کوئی مسئلہ الٹ بیان کردیا ہو۔ جادو اور بیماری میں فرق : بسا اوقات جادو اور بیماری کے اثرات یکساں ہوتے ہیں اس لیے سب سے پہلے ڈاکٹر سے علاج کروانا چاہیے۔ میڈیکل رپورٹس کے بعد اگر یقین کی حد تک معلوم ہوجائے کہ مریض کو جسمانی بیماری نہیں اور مریض میں درج ذیل علامات پائی جائیں تو پھر جادو اور جنّاتی اثرات کو زائل کرنے کے لیے قرآن وسنت کے مطابق علاج کرنا چاہیے۔ جادو کی علامات : 1۔ بلاسبب میاں بیوی کے درمیان نفرت اور ایک دوسرے سے دور رہنے میں اطمینان محسوس کرنا۔ 2۔ گھر میں بلاوجہ اختلافات بڑھتے جانا۔ 3۔ گندہ رہنے میں سکون محسوس کرنا۔ 4۔ ڈراؤنی چیزوں کا نظر آنا۔ 5۔ کپڑوں پر خون کے چھینٹے پڑنا۔ 6۔ چوری کی واردات کے بغیر چیزوں کا غائب ہوجانا۔ 7۔ روحانی علاج کے وقت شیطانی علامات ظاہر ہونا۔ 8۔ جسمانی عارضہ اور کسی واقعاتی پریشانی کے بغیر یک دم نسیان کا شکار ہونا۔ 9۔ بغیر بیماری کے طبیعت میں چڑ چڑا پن پیدا ہونا اور اس کا روز بروز بڑھتے ہی جانا۔ 10۔ ذکر الٰہی بالخصوص نماز اور تلاوت قرآن سے دل میں دوری پیدا ہونا۔ 11۔ مارکیٹ تیز ہونے اور کاروباری رویّہ درست ہونے کے باوجود یک دم کاروبار کا بند ہوجانا۔ جادو، ٹونے کا شرعی علاج : جو شخص جادو یا جنات کے اثرات محسوس کرے اسے درج ذیل اقدامات کرنے چاہییں۔ کیونکہ دین نے ایسا کرنے کی رہنمائی فرمائی ہے۔ طہارت کا اہتمام : طہارت اور صفائی کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور ہر وقت باوضو رہنا سنّت بھی ہے اور مفید بھی۔ خوشبو کا استعمال : خوشبو کا استعمال کرنا سنت بھی ہے اور مفید بھی۔ تلاوت قرآن مجید اور کثرت ذکر : ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے رہنا چاہیے خاص کر گھر میں قرآن مجید کی تلاوت اور نوافل پڑھنا۔ یاد رکھیے کہ قرآن مجید کی تلاوت کم از کم اتنی آواز میں ہونی چاہیے کہ پڑھنے والے کو قرآن مجید کے الفاظ سنائی دیں۔ دَم کرنا : سورۃ البقرۃ، آیت الکرسی اور آخری تین سورتیں یعنی سورۃ اخلاص اور معوذتین کے ساتھ صبح‘ شام تین تین مرتبہ پڑھ کر اپنے آپ کو دم کرنا سنت ہے۔ مسلسل دعا : رسول کریم (ﷺ) پر جب جادو ہوا تو آپ اللہ تعالیٰ سے بار بار دعا کرتے تھے۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں مریض کو اٹھتے بیٹھتے ہر وقت دل اور زبان سے اللہ کے حضور اس مصیبت سے نجات کی التجائیں کرنی چاہئیں۔ اذان دینا : اثرات زدہ گھر میں اذان کہنی چاہیے کیونکہ آپ (ﷺ) کا فرمان ہے کہ اذان سن کر شیطان دور بھاگ جاتا ہے۔ لعنت بھیجنا : جادو کرنے، کروانے والے اور شیطان کو ذہن میں رکھتے ہوئے کثرت کے ساتھ درج ذیل الفاظ پڑھنا چاہییں کیونکہ جب نماز کی حالت میں ایک جن نے آگ کا بگولہ آپ (ﷺ) کے چہرہ مبارک کے قریب کیا تھا تو آپ نے یہ الفاظ کہے تھے اور آپ کا ارشاد ہے کہ جب کوئی لعنت کرنے والا لعنت کرتا ہے اگر وہ واقعتا مظلوم ہے تو اسکی لعنت ظالم پر ضرور اثر انداز ہوگی۔ ﴿عَلَیْھِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَلْمَلٰائِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ﴾ (البقرۃ:161) مسائل: 1۔ سب کو اپنے ” رب“ سے پناہ مانگنا چاہیے جو رات کے بعد صبح طلوع کرنے والا ہے۔ 2۔ رات کے اندھیرے اور ہر چیز کے شر سے پناہ مانگنی چاہیے۔ 3۔ جادو، ٹونا کرنے والی عورتوں اور حاسد کے حسد سے پناہ مانگنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: ” رب“ کا معنٰی : 1۔ لوگو! اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء :1) 2۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن :62) 3۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمھارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام :147) 4۔ یہ تمھارا رب ہے اس کے سوا دوسرا کوئی خالق نہیں۔ (الانعام :102)