تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ
ابولہب [١] کے دونوں ہاتھ تباہ ہوں اور وہ (خود بھی) ہلاک ہو
فہم القرآن: (آیت 1 سے 5) ربط سورت : نبی (ﷺ) کو سورۃ النّصر میں ہر قسم کی کامیابی اور دین کے غالب ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے اور سورۃ اللّہب میں بتلایا ہے کہ عنقریب دین اور آپ کا دشمن ہلاک ہوجائے گا۔ مفسّرِ قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ“ اے نبی ! اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرائیں تو نبی (ﷺ) صفا پہاڑی پر جلوہ افروز ہوئے اور آپ نے قریش کے قبائل کا نام لے لے کر بلایا لوگ دوڑتے ہوئے صفا پہاڑی کی طرف پہنچے، جس قبیلے کا سربراہ خود نہ پہنچ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا کہ جاؤ پتہ کرو کہ محمد بن عبداللہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس زمانے میں رواج تھا کہ جس شخص کو کوئی حادثہ پیش آتا وہ کسی پہاڑی پر کھڑے ہو کر اپنے کپڑے پھاڑ کر لوگوں کو اپنی مدد کے لیے بلاتا، کچھ لوگ ایمر جنسی میں پہاڑ پر آگ جلاتے اور اپنا گریبان پیٹتے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے اور جو ان میں مہذب اور حوصلہ مند لوگ ہوتے وہ صبح کے وقت پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر یا صباحا ! یا صباحا! کے الفاظ پکارتے۔ رسول معظم (ﷺ) نے مہذب طریقہ اختیار کرتے ہوئے یا صباحا! یاصباحا! کی آواز بلند فرمائی اور لوگوں کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی، تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ اس موقعہ پر بیت اللہ کا طواف کرنے والے بھی رک گئے اور لوگ ٹکٹکی باندھ کر آپ کے چہرۂ مبارک کو دیکھنے لگے، جونہی لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے استفسار فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہورہا ہے تو کیا تم مان جاؤگے ؟ انہوں نے بیک زبان ہو کر کہا کیوں نہیں! ” مَاجَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا“ ہم نے آپ کے بارے میں ہمیشہ سچ کا تجربہ کیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ” مَاسَمِعْنَا بِھٰذَا“ کے الفاظ کہتے مگر وہ عرب تھے اس لیے انہوں نے ” مَاسَمِعْنَا بِھٰذَا“ کی بجائے یہ کہا کہ ہم نے آپ کا باربار تجربہ کیا ہے کہ آپ سچ بولتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے آپ کی تینتالیس سالہ حیات مبارکہ کی تائید کی اور آپ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ تب آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا : ” قُوْلُوْا لَااِلٰہَ الاَّ اللَّہُ تُفْلِحُوْا“ جوں ہی آپ نے لوگوں کو توحید خالص کی دعوت دی تو وہ آگ بگولہ ہوگئے۔ ابولہب نے یہاں تک ہر زہ سرائی کی کہ ” تَبًّا لَّکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا“ تو تباہ ہوجائے کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ (رواہ البخا ری : باب ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِين﴾) یاد رہے کہ ابولہب کے ساتھ نبی معظم (ﷺ) کے چار رشتے تھے۔ ان میں ہر رشتہ عربوں کے ہاں نہایت ہی قابل احترام تھا۔ 1۔ نبی (ﷺ) کے ابولہب چچا تھے۔ ہر معاشرے میں اور عربوں کے ہاں بھی چچا والد کے قائم مقام سمجھا جاتا تھا، لیکن ابولہب نے اس عظیم رشتہ کی کوئی پرواہ نہ کی۔ 2۔ نبی (ﷺ) اور ابولہب مکہ میں ایک دوسرے کے پڑوسی تھے ہر معاشرے میں پڑوسی کے حقوق مسلّمہ ہیں۔ عرب بھی پڑوسی کے حقوق کا بہت خیال رکھتے تھے مگر ابولہب نے اس رشتے کے تقدُّس کو بھی پامال کردیا۔ 3۔ نبوت سے پہلے نبی (ﷺ) کی دوبیٹیوں کی نسبت ابولہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ ہوئی تھی۔ توحید کی دعوت کا اعلان کرنے کی وجہ سے ابولہب کے کہنے پر اس کے بیٹوں نے بڑے گستاخانہ انداز میں ان نسبتوں کو توڑ دیا۔ 4۔ جس بی بی نے ابو لہب کو بچپن میں دودھ پلایا تھا نبی (ﷺ) نے بھی بچپن میں اس کا دودھ پیا تھا، اس کا نام ثوبیہ تھا۔ اس لحاظ سے ابو لہب آپ (ﷺ) کا رضاعی بھائی تھا عرب رضائی بھائی کو حقیقی بھائی کی طرح خیال کرتے تھے لیکن ابو لہب نے اس رشتے کی بھی پرواہ نہ کی۔ ابولہب کے ردِّ عمل میں یہ سورت نازل ہوئی جس میں ہر کسی کے لیے کھلے لفظوں میں پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایمان سے بڑھ کر کوئی رشتہ مقدّم نہیں لہٰذا ایمان نہ ہوتوحسب ونسب کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ قرآن مجید میں ابولہب ہی وہ بدقسمت انسان ہے جس کا نام لے کر اس پر پھٹکار کی گئی ہے۔ ابولہب کا نام عبدالعزّٰی تھا۔ قرآن مجید نے اس کے شرکیہ نام کا ذکر کرنے کی بجائے اس کی کنیت کے نام پر مخاطب کیا جس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی کنیت سے لوگوں میں مشہور تھا۔ ابولہب شکل وصورت کے لحاظ سے نہایت خوبصورت تھا جس وجہ سے لوگ اسے ابولہب کہتے تھے جس کا معنٰی ہے آگ جیسا روشن چہرہ رکھنے والا۔ لیکن برا عقیدہ اور کردار رکھنے کی وجہ سے وہ اپنی کنیّت کے حوالے سے اسم بامسمّٰی ثابت ہوا اور اسے ہمیشہ کے لیے دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ اس کا مال اور اس کی اولاد اس کے کسی کام نہ آئے اس کے ساتھ ہی اس کی بیوی بھی جہنم کا ایندھن بنے گی جس کے بارے میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جو اپنے سر پر ایندھن اٹھانے والی ہے اور اس کی گردن میں بٹی ہوئی رسی ہوگی۔ ابولہب مکہ کے امیر ترین چار آدمیوں میں شمار ہوتا تھا اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں اس کے پاس نقدی اور جائیداد کے علاوہ آٹھ کلو سونا موجود تھا۔ ( تفہیم القرآن) ظاہر بات ہے کہ اس کی بیوی کو ہر قسم کی سہولت حاصل تھی۔ مگر نبی کریم (ﷺ) کی مخالفت میں اس قدر اندھی ہوچکی تھی کہ کانٹے دار جھاڑیاں اٹھا کر نبی (ﷺ) کے گھر کے سامنے پھینک دیتی۔ یہی عمل اس کی موت کا سبب ثابت ہوا۔” حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ“ عربی محاورۃ میں چغلیاں کرنے والی کو بھی کہا جاتا ہے گویا کہ وہ نبی کے بارے میں چغلیاں بھی کیا کرتی تھی۔” جِیْدًا“ اس گردن کو کہا جاتا ہے جسے زیور کے ساتھ سجایا گیا ہو یعنی دنیا میں جس گردن میں زبور پہنا کرتی ہے قیامت کے دن اس نرم و نازک گردن میں جہنم کی آگ سے بنا ہوا رسا ڈالا جائے گا۔ ابو لہب اپنی بزدلی کی وجہ سے جنگ بدر میں شریک نہ ہوا لیکن بدر کی شکست کا اسے اس حد تک صدمہ پہنچا کہ یہ اندر ہی اندر گھلتا چلا گیا یہاں تک کہ اسے کوڑھ کی بیماری لاحق ہوگئی اس کے جسم میں بد بو پھیل گئی گھر کا کوئی فرد اسے ہاتھ لگانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس حالت میں ذلیل ہو کر مرا، دفنانے کے لیے بدو بلائے گئے جنہوں نے اسے مٹی میں دبایا۔ مسائل: 1۔ ابولہب بدترین طریقے سے ہلاک ہوا اور اس کا مال اور اس کی اولاد اس کے کچھ کام نہ آئے۔ 2۔ ابولہب جہنم کی دہکتی ہوگئی آگ میں ڈالا جائے گا۔ 3۔ ابولہب کی بیوی جس رسی سے لکڑویوں کا گٹھا اٹھاتی تھی وہ رسی اس کی ہلاکت کا سبب بنی۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن مال اور اولاد کی حیثیت : 1۔ مال اور اولاد دنیا کی نمائش ہیں باقی رہنے والے نیک اعمال ہیں۔ (الکہف :46) 2۔ قیامت کے دن مال اولاد کام نہیں آئے گی۔ (الشعراء :88) 3۔ جان لو کہ مال، اولاد تمھارے لیے فتنہ ہیں۔ (الانفال :28) 4۔ اے ایمان والو تمھیں مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے تمہیں غافل نہ کردیں۔ (المنافقون :9) 5۔ مال اور اولاد تمھارے لیے آزمائش ہے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ (التغابن :15)