لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ
چونکہ (اللہ نے) قریش کو مانوس کردیا [١] تھا
فہم القرآن: (آیت 1 سے 4) ربط سورت : اللہ تعالیٰ نے ابابیل کے ذریعے بیت اللہ اور قریش کی حفاظت فرمائی، لیکن اس کے باوجود قریش ” اللہ“ کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے انہیں پھر احساس دلایا گیا ہے۔ عرب کے قبائل میں قریش سب سے معزز اور باثر قبیلہ تھا اور اسی کی ایک شاخ بنی ہاشم تھے جو سب سے ممتاز اور محترم سمجھتے جاتے تھے، اسی قبیلے کے سردار عبدالمطلب تھے ان کے چھوٹے بیٹے جناب عبداللہ کے گھر نبی آخر الزمان (ﷺ) پیدا ہوئے آپ کے خاندان کو بیت اللہ کی تولیّت اور حجاج کرام کی خدمت کا اعزاز حاصل تھا۔ جس بنا پر آپ (ﷺ) کا خاندان اہل مکہ کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے اس سورت میں قریش کو مخاطب کیا گیا ہے جس میں تمام عرب بھی شامل ہیں۔ ارشاد ہوا کہ قریش کو گرمی اور سردیوں کے سفر سے مانوس کردیا گیا لہٰذا ان کا اولین فرض ہے کہ وہ صرف کعبہ کے رب کی عبادت کریں، جس نے انہیں گرمیوں اور سردیوں کے سفر سے مانوس کیا اور انہیں ہر قسم کے رزق کی فراوانی اور امن و امان سے سرفراز فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی بیوی ہاجرہ (رض) اور اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کو بیت اللہ کے قریب ٹھہرایا تو ان الفاظ میں اپنے رب کے حضور دعا کی۔ ” اے ہمارے رب ! بے شک میں نے اپنی اولاد کو اس وادی میں لا بسایا ہے، یہاں کھیتی باڑی نہیں ہے، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب ! تاکہ یہ نماز قائم کریں، لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں سے رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر ادا کریں۔“ (ابراہیم :37) اس دعا کا نتیجہ تھا اور ہے کہ ہر دور میں مکہ میں رزق اور پھلوں کی فراوانی رہی ہے اور قیامت تک رہے گی اور ہمیشہ سے یہ شہر امن وامان کا گہوارہ چلا آرہا ہے اور رہے گا، کسی علاقے میں رہنے اور ترقی کرنے کے لیے دوچیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ایک رزق کی فراوانی اور دوسرا امن وامان کی ضمانت۔ ان میں سے کسی ایک چیز کا فقدان ہو تو وہاں رہنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے قریش کو یہ نعمتیں وافر مقدار میں میسر تھیں۔ جس دور میں نقل و حمل اور مواصلات کے ذرائع اس قدر عام اور تیز نہیں تھے اس دور میں بھی مکے کے بازاروں میں خوردونوش کی ہر چیز کھلے عام ملتی تھیں۔ امن وامان کا عالم یہ تھا کہ عرب میں تنہا سفر کرنا تو درکنار قافلے بھی حفاظتی دستوں کے بغیر سفر نہیں کرسکتے تھے۔ افراتفری کے اس عالم میں قریش سردیوں میں یمن کے راستے ہندوستان تک تجارت کرتے اور گرمیوں میں شام، فلسطین اور مشرق وسطیٰ کی منڈیوں میں خرید وفروخت کرتے تھے۔ جونہی لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اس قافلے میں قریش کے لوگ بھی موجود ہیں تو بڑے بڑے ڈاکو اس قافلے کا راستہ چھوڑ دیتے تھے۔ یہاں تک کہ قریش کے راہ داری پروانوں پر بھی قافلے امن وامان پاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کے لوگوں کو ان سفروں کے ساتھ اس طرح مانوس کردیا تھا کہ انہیں یہ سفرکسی قسم کا بوجھ محسوس نہیں ہوتے تھے۔ ا سی لیے اس سورت کی ابتدا ” اٖلٰفِ“ کے لفظ سے کی گئی ہے جس کے مفسرین نے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ 1۔ قریش کا گرمی اور سردی کے موسم میں سفر کے ساتھ مانوس کیا جانا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی وجہ سے قریش کو دوسرے عربوں کے مقابلے میں متحد کرنا۔ 3۔ گرمی اور سردی کے سفروں سے مراد یہ ہے کہ گرمی کے موسم میں قریش کے تجارتی قافلے سفر شام اور فلسطین کی طرف جاتے جو ٹھنڈے علاقے تھے، اور سردی کے موسم میں وہ عرب کے جنوب کی طرف سفر کرتے تھے جو گرم علاقے تھے۔ ان احسانات کا یہ نتیجہ ہونا چاہیے تھا کہ عرب صرف ایک رب کی عبادت کرتے اور نبی آخرالزمان (ﷺ) کی دعوت کا ساتھ دیتے لیکن انہوں نے کعبے کے رب کی عبادت اور نبی (ﷺ) کی دعوت قبول کرنے کی بجائے بیت اللہ کے اندر تین سو ساٹھ بت رکھ لیے اور کعبہ کے رب کی خالص عبادت کرنے کی بجائے بتوں کو اس کی عبادت میں شریک کرلیا تھا وہ کسی بت کے ذریعے رزق طلب کرتے، کسی کے واسطے سے، اولاد مانگتے، کسی سے عزت کی درخواست کرتے، کسی کی طفیل بارش کے طلبگار ہوتے، کسی کی حرمت سے دشمن پر غلبہ چاہتے اور کسی کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کا ذریعہ سمجھتے تھے، حالانکہ حکم یہ تھا کہ خالصتاً کعبہ کے رب کی عبادت کی جائے۔ تفسیر بالقرآن: تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کا جامع مفہوم : 1۔ نوح (علیہ السلام) کا فرمان کہ اللہ کی عبادت کرو۔ (ھود :26) 2۔ ھود (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (الاعراف :65) 3۔ صالح (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (الاعراف :73) 4۔ شعیب (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا۔ (الاعراف :85) (یوسف :40) (المائدۃ:72) 5۔ اے نبی (ﷺ) ” اللہ“ نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے ہیں انہیں یہی حکم دیا کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ صرف ایک ” الٰہ“ کی عبادت کریں۔ (الانبیاء :25) (الانعام : 163، 164) (آل عمران :64)