إِنَّ الْإِنسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ
کہ انسان اپنے پروردگار کا سخت ناشکرا [٦] ہے
فہم القرآن: (آیت 6 سے 8) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے گھوڑے اور بڑے بڑے جانوروں کو انسان کے تابع بنادیا ہے مگر انسان اپنے رب کا تابع فرمان ہونے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں خلیفہ بنا کر ہر چیز کو اس کی خدمت پر لگا دیا ہے جن میں گھوڑا بھی اس کے خدام میں شامل ہے۔ گھوڑے پر غور فرمائیں کہ وہ اپنی جسامت اور طاقت کے اعتبار سے انسان سے کتنا طاقتور ہے اگر گھوڑا اپنے مالک سے سرکش ہو کر بھاگ نکلے تو مالک دوڑ کر اسے پکڑ نہیں سکتا، مالک سے جسامت اور طاقت میں بڑا ہونے کے باوجود نہ صرف گھوڑا سواری کے کام آتا ہے بلکہ جنگ کے موقع پر دشمن کی صفوں میں اس طرح آگے بڑھتا ہے جس طرح یہ اپنے دشمن کے خلاف کھڑا ہو۔ جنگی گھوڑا اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنے مالک کو لے کر دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے، یہ اس لیے ہے کہ گھوڑا اپنے مالک کا نمک حلال اور وفادار ہوتا ہے لیکن انسان کی حالت یہ ہے کہ جب اسے کشادگی حاصل ہوتی ہے تو یہ اپنے رب کا نمک حرام اور نافرمان بن جاتا ہے۔ بالخصوص انسان مال کی محبت میں بڑا سخت واقع ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کتراتا ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ یہ مال اللہ نے ہی مجھے عطا فرمایا ہے مگر اس کے باوجود وہ بخل اور ناشکری کرنے سے باز نہیں آتا۔ جب کہ اس کا دل گواہی دیتا ہے کہ مجھے اپنے رب کی ناشکری اور اس کی راہ میں بخل نہیں کرنا چاہیے۔ ﴿کَلَّآاِنَّ الْاِِنسَانَ لَیَطْغٰی۔ اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی اِِنَّ اِِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی﴾ (العلق : 6تا8) ” ہرگز نہیں یقیناً انسان سرکشی کرتا ہے، جب وہ اپنے آپ کو مستغنی دیکھتا ہے حالانکہ اس کا پلٹنا آپ کے رب کی طرف ہے۔“ مسائل: 1۔ انسان یقیناً مال کی محبت میں بڑا حریص اور سخت ہے۔ 2۔ یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہونے کا اقرار کرتا ہے۔