يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ
اس دن لوگ متفرق [٥] ہو کر واپس لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے [٦] جائیں
فہم القرآن: (آیت 6 سے 8) ربط کلام : محشر کے میدان میں لوگوں کے اکٹھا ہونے کیا ہمیت اور ہر کسی کا اپنے اعمال کا سامنا کرنا۔ قرآن مجید اور حدیث رسول میں یہ بات بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ لوگ اپنی قبروں سے نکل کر محشر کے میدان کی طرف جائیں گے۔ لوگوں کے جمع کرنے کے بارے میں قرآن مجید میں دو طرح کی آیات وارد ہوئی ہیں۔ ” جس دن صور میں پھونک ماری جائے گی تم گروہ در گروہ نکل آؤ گے۔“ (النبا :18) ” قیامت کے دن سب اکیلے اکیلے اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔“ (مریم :95) بظاہر ان آیات کے مفہوم میں تعارض اور تقابل نظر آتا ہے لیکن معمولی توجہ کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بات یوں سمجھ میں آتی ہے کہ قبروں سے لوگ اکیلے اکیلے اٹھائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور بھی ہر شخص اکیلا اکیلا ہی پیش کیا جائے گا۔ لیکن محشر کے میدان میں اکٹھا ہونے کے لیے کھربہا انسان گروہوں کی صورت میں جمع ہوں گے اور ہر شخص کے سامنے اس کا اعمالنامہ کھول کر رکھ دیا جائے گا۔ ” کتاب رکھی جائے گی آپ مجرموں کو دیکھیں گے کہ جو کچھ اس کتاب میں ہوگا وہ اس سے ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے ہائے افسوس ! یہ کیسی کتاب ہے کہ اس نے نہ چھوٹی بات چھوڑی ہے اور نہ بڑی بات چھوڑی ہے اس نے سب کچھ شمار کر رکھا ہے انھوں نے جو کچھ کیا تھا اسے حاضر پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔“ (الکہف :49) ” عبداللہ (رض) بن عیاش بن ابی ربیعہ کے غلام زیاد نے عبد اللہ (رض) بن عیاش کے سامنے حدیث بیان کی اس آدمی سے جس نے اسے نبی (ﷺ) سے سنا تھا۔ رسول اللہ (ﷺ) کے صحابہ میں سے ایک آدمی آپ کے سامنے عرض کرنے لگا اے اللہ کے رسول (ﷺ) میرے دو غلام ہیں جو میرے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں، خیانت کرتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں۔ میں انہیں پیٹتا ہوں اور گالیاں دیتا ہوں میرا معاملہ کیسا ہے؟ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس قدر تیری خیانت، تیری نافرمانی اور تیرے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں اگر تیری ڈانٹ ڈپٹ ان کی غلطیوں سے کم ہوئی تو تجھے اجر عطا کیا جائے گا اور اگر برابرہوئی تو معاملہ یکساں ہے اور اگر ڈانٹ ان کی خطاؤں سے زیادہ ہوئی تو تیری نیکیوں میں کمی کی جائے گی یہ سن کر وہ شخص آپ (ﷺ) کے سامنے زاروقطار رونے لگا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کیا تو اللہ کی کتاب نہیں پڑھتا؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن ہم عدل و انصاف کا ترازو قائم کریں گے اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ نیکی اور برائی ایک رائی کے دانے کے برابر ہوئی ہم اسے بھی لے آئیں گے۔ ہم کافی ہیں حساب لینے والے۔ وہ آدمی کہنے لگا اے اللہ کے رسول میں اس سے بہتر سمجھتا ہوں کہ غلاموں کو آزاد کر دوں اور میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں میں نے انہیں آزاد کردیا۔“ (رواہ احمد : مسند السیدۃ عائشۃ، قال الترمذی ہذا حدیث غریب) (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بالْکَلِمَۃِ مِنْ رِضْوَان اللّٰہِ لاَ یُلْقِیْ لَھَا بَالًا یَرْفَعُ اللّٰہُ بِھَا دَرَجَاتٍ وَاِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بالْکَلِمَۃِ مِنْ سَخَطِ اللَّہِ لَا یُلْقِی لَھَا بَالًا یَھْوِیْ بِھَا فِیْ جَھَنَّمَ) (بخاری : باب حفظ اللسان) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : بلاشبہ جب آدمی اللہ کی رضا کے لیے کوئی کلمہ زبان سے نکالتا ہے حالانکہ وہ اس کو معمولی سمجھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کلمہ کی وجہ سے اس کے درجات بلند فرماتا ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کی ناراضگی کی بات کرتا ہے اور وہ اسے معمولی سمجھتا ہے تو اس معمولی بات کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن لوگ گروہوں کی شکل میں میں محشر کے میدان میں جمع کیے جائیں گے۔ 2۔ لوگوں کو اس لیے محشر کے میدان میں جمع کیا جائے گا تاکہ وہ اپنے اعمال اور ان کا انجام دیکھ لیں گے۔ 3۔ جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اپنی نیکی دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اپنی برائی کو اپنے سامنے پائے گا۔ تفسیر بالقرآن: محشر کے میدان میں لوگوں کی حالت۔ 1۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعہ :1) 2۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دینا۔ (الزلزال :1) 3۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف :187) (الحج :1) 4۔ قیامت کے دن لوگ اڑتے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (القارعہ :4)