وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ
اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی ان میں تفرقہ اس بات کے بعد پیدا ہوا جبکہ پہلے ان کے پاس واضح احکام آچکے [٦] تھے
فہم القرآن: (آیت 4 سے 5) ربط کلام : واضح ہدایات آجانے کے باوجود اہل کتاب کا منفی کردار۔ اس فرمان میں بظاہر صرف اہل کتاب کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن اس خطاب میں مشرکین بھی برابر کے شریک ہیں۔ اہل کتاب کا الگ اس لیے ذکر کیا ہے کہ مشرکین عرب بظاہر کسی آسمانی کتاب کے قائل نہیں تھے لیکن اہل کتاب آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے۔ یہاں ان کی مذہبی حالت بیان کرکے اشارہ کیا ہے کہ جب اہل کتاب کے کفر و شرک کی حالت یہ تھی اور ہے تو مشرکین کے شرک کی حالت کیا ہوگی ؟ اس کے ساتھ ہی اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اہل کتاب کے فکری انتشار اور ان کے کفرو شرک کی وجہ یہ نہیں کہ ان کے پاس رسول، آسمانی کتابیں اور کھلے معجزات نہیں آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس رسول اور کتابیں آئیں اور انبیاء کرام (علیہ السلام) نے انہیں معجزات دکھائے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ آپس میں تقسیم ہوگئے حالانکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ کسی اور کی عبادت کرنے کی بجائے دین حق کی ہدایت کے مطابق یکسو ہو کر صرف ایک ” اللہ“ کی عبادت کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں یہی سچا اور مستحکم دین ہے۔ لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے لاپرواہی کی جس وجہ سے نہ اللہ کی خالص بندگی پر قائم رہے اور نہ ہی نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کرسکے جس کے نتیجے میں نہ صرف دین خالص سے دور ہوئے بلکہ آپس میں بھی فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ دین قیم کے الفاظ لاکر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دین میں فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں۔ یاد رہے کہ دین واضح ہونے کے ساتھ اس کے بنیادی اصول ہمیشہ سے ایک رہے ہیں۔ ان کا بنیادی تقاضا ہے کہ دین کے ماننے والے بھی آپس میں متحد اور ایک رہیں۔ ” حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : یہودی اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے، ان کے ستر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا۔ عیسائی بہتر فرقوں میں بٹ گئے، ان کے اکہترفرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں داخل ہوگا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے اور ایک جنتی ہوگا۔ صحابہ نے عرض کی جنت میں جانے والے کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلنے والے ہیں۔“ (رواہ ابن ماجۃ: باب افْتِرَاقِ الأُمَم، قال الالبانی ھٰذا حدیث حسن) دین کے معانی اطاعت : ﴿تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ اَ لَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ﴾ (الزمر : 1تا3) ” یہ کتاب اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ (اے محمد) یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف برحق نازل کی ہے۔ لہٰذا اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرو خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے۔“ قانون اور ضابطہ : ﴿فَبَدَاَ بِاَوْعِیَتِھِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِیْہِ ثُّمَّ اسْتَخْرَجَھَا مِنْ وِّعَاءِ اَخِیْہِ کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِی دِیْنِ الْمَلِکِ۔۔﴾ (یوسف :76) ” یوسف نے اپنے بھائی سے پہلے دوسروں کی تھیلوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کے تھیلے سے گم شدہ چیز برآمد کرلی۔ اس طرح ہم نے یوسف کی تائید اپنی تدبیر سے کی۔ اسے یہ اختیار نہ تھا کہ بادشاہ کے دین یعنی مصر کے شاہی قانون کے مطابق اپنے بھائی کو پکڑلیتا۔“ نظام حکومت : ﴿وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْھِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ﴾ (غا فر :26) ” ایک دن فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا، چھوڑو مجھے میں موسیٰ کو قتل کیے دیتا ہوں اور یہ پکار دیکھے اپنے رب کو۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا ملک میں فساد برپا کرے گا۔“ دین بمعنٰی دین (مذہب): ﴿قَا تِلُوْا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَلَا بالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوْا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صٰغِرُوْنَ﴾ (التوبۃ:29) ” جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں جانتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں سمجھتے ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور ماتحت بن کر رہیں۔“ دین سے مراد قیامت : ﴿یَّصْلَوْنَھَا یَوْمَ الدِّیْنِ وَمَا ھُمْ عَنْھَا بِغَآئِبِیْنَ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًا وَاْلَامْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِ﴾ (الانفطار : 15تا19) ” جزا کے دن وہ اس میں داخل ہوں گے اور اس سے ہرگز غائب نہ ہو سکیں گے۔ اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ جزا کا دن کیا ہے ؟ ہاں تمہیں کیا خبر کہ وہ جزا کا دن کیا ہے؟ یہ وہ دن ہے جب کسی شخص کے لیے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا، فیصلہ اس دن صرف اللہ کے اختیار میں ہوگا۔“ دین بمعنٰی جزأ و سزا : ﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ (فاتحہ :3) ” روز جزا کا مالک ہے۔“ مسائل: 1۔ اہل کتاب واضح دلائل پانے کے باوجود فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ 2۔ اہل کتاب کو حکم تھا کہ وہ آسمانی دین کے مطابق صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ 3۔ اہل کتاب کو حکم تھا کہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیتے رہیں۔ 4۔ صرف ایک اللہ کی یکسو ہو کر عبادت کرنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا دین خالص کے بنیادی اصول ہیں۔ تفسیر بالقرآن : دین قیم کے بنیادی اصول : 1۔ غیب پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:1) 2۔ قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:4) 3۔ اللہ اور کتب سماوی پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:136) 4۔ آخرت پر یقین رکھنا۔ (البقرۃ:4) 5۔ انبیاء پر ایمان لانا اور ان میں فرق نہ کرنا۔ (آل عمران :84) 6۔ ایمان کی تفصیل۔ (البقرۃ:285)