أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَىٰ
کیا تم نے اس شخص کو دیکھا منع [٩] کرتا ہے
فہم القرآن: (آیت 9 سے 19) ربط کلام : باغی انسانوں میں ایک باغی کی مثال اور گھناؤنا کردار۔ مفسرین کی اکثریت نے اس آیت کا پہلا مصداق ابوجہل قرار دیا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک دن ابوجہل قریشی سرداروں کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ جونہی محمد (ﷺ) کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھوں گا تو اس کا سر کچل دوں گا۔ وہ یہ بات کررہاتھا کہ اچانک اللہ کے رسول (ﷺ) بیت اللہ میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ اس کے ساتھیوں نے ابوجہل سے کہا کہ اٹھو اور اپنا وعدہ پورا کرو نبی (ﷺ) اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوئے تو ابوجہل پتھر لے کر آگے بڑھا ابھی آپ سے چند قدم دور تھا کہ گھبرا کر اپنے ساتھیوں کی طرف مڑا۔ اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اس کا رنگ اڑا ہوا ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے جس طرح اس پر کوئی چیز حملہ آور ہوئی ہے ابھی وہ سنبھل نہیں پایا تھا کہ اس کے ساتھیوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہے۔ ابوجہل لڑکھڑاتی ہوئی زبان کے ساتھ کہنے لگا کہ جب میں پتھر لے کر اس کے قریب پہنچا اور پتھر پھینکنے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ مجھے یوں لگا جیسے میرے اور ” محمد (ﷺ) “ کے درمیان آگ کی خندق حائل ہوگئی ہے، مجھے یقین ہوگیا کہ اگر میں ایک قدم آگے بڑھتا تو آگ کے بڑے بڑے شعلے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتے۔ اس حالت میں بڑی مشکل سے چلتا ہوا آپ تک پہنچا ہوں۔ اس کا یوں ذکر کیا گیا ہے کہ آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے دین حق کو جھٹلایا اور منہ موڑ لیا۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر وہ اپنی حرکات سے باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹیں گے، یہ پیشانی وہی ہے جو کذاب اور بڑے نافرمان کی پیشانی ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو بلا لے اور ہم بھی جہنم کے فرشتوں کو بلاتے ہیں۔ (العلق : 9تا18) غور فرمائیں کہ اگر یہ ہدایت پر ہوتا اور تقویٰ اختیار تو اسے کتنا فائدہ پہنچتا لیکن اس نے ہدایت پانے اور تقویٰ اختیار کرنے کی بجائے سچ کو جھٹلایا اور آپ سے منہ موڑ لیا۔ اے نبی (ﷺ) ! کسی صورت بھی اس کے پیچھے نہیں لگنا اور نہ ہی اس سے ڈرنا ہے۔ آپ اپنے رب کو سجدہ کریں اور اس کا قرب حاصل کریں۔ آپ کو اس موقع پر سجدہ کرنے اور قرب حاصل کرنے کا اس لیے حکم دیا گیا کہ ایسے موقعہ پر داعی کو مخالف سے الجھنے کی بجائے اپنے ” رب“ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے یہی سبق ہر مسلمان کے لیے ہے کہ اسے کسی مشکل سے واسطہ پڑے تو وہ ادھر ادھر بھاگنے کی بجائے اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور نماز کی حالت میں ” اللہ“ سے مدد طلب کرے۔ کیونکہ حکم ہے کہ اے ایمان والو! نماز اور صبر کے ذریعے اپنے رب سے مدد طلب کرو یقیناً ” اللہ“ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ( البقرۃ:153) (یَابِلَالُ ! اَرِحْنَا بالصَّلَاۃِ) (مسند أحمد : کتاب باقی مسند الانصار) ” اے بلال ! نماز کے ذریعے ہمیں سکون پہنچاؤ۔“ ” اَلزَّبَانِیَۃَ” سے مراد ہے دوزخ کے وہ فرشتے ہیں جو جہنمیوں کو دوزخ کی طرف دھکیلیں گے۔ مسائل: 1۔ انسان کو دین کے راستے میں رکاوٹ بننے کی بجائے ہدایت کے راستے کا معاون بننا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ انسان کو قوت عطا فرمائے تو اسے اپنے آپ اور لوگوں کو تقویٰ کی راہ پر لگانا چاہیے۔ 3۔ ہر انسان کو ہر دم خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ 4۔ جو آدمی دوسروں پر ظلم اور اپنے رب کی نافرمانی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں ذلیل کرے گا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ 6۔ ایک داعی کو کسی سے ڈرنے کی بجائے اپنا کام کیے جانا چاہیے۔ 7۔ ایک مسلمان بالخصوص داعی کو نماز کے ذریعے اپنے رب کا قرب حاصل کرنا چاہیے کیونکہ ” رب“ کا قرب ہی مشکل حالات میں انسان کے لیے ڈھارس اور تسکین کا باعث اور اس کے رب کی مدد کا ذریعہ بنتا ہے۔