فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ
تو جب آپ فارغ ہوں تو (عبادت کی) مشقت میں لگ جائیں
فہم القرآن: (آیت 7 سے 8) ربط کلام : انسان کا فرض بنتا ہے کہ اسے جب آسانی اور کامیابی حاصل ہو تو اپنے رب کو یاد رکھے اور اس کا شکریہ ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کی ذات پر جو خصوصی انعامات فرمائے۔ اس لیے حکم ہوا کہ کامیابی، آسانی اور فراغت کے وقت اپنے رب کو رغبت یعنی پوری توجہ کے ساتھ یاد کیا کریں۔ فراغت کے وقت یاد کرنے کا یہ معنٰی نہیں کہ فراغت میسر نہ ہو تو اپنے رب کو بھول جایا جائے۔ اس سورت میں نبوت کی ذمہ داریوں اور اس کی مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ جب بھی دعوت کے کام سے فرصت میسر ہو تو نفلی نماز اور ذکر وفکر میں مصروف ہوجایا کریں۔ اس میں ایک مبلغ اور مدرس کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ بے شک دعوت اور تعلیم وتعلّم کا کام نیکی ہے لیکن اس میں بھی وقت نکال کر داعی کو پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کا ذکر کرنا چاہیے، گویا کہ دعوت کے کام کے لیے ایمان کی بیٹری چارج کرنا اور اس کام پر اپنے رب کا شکر گزار ہونا لازم ہے بصورت دیگر ایک سچا داعی اپنے دل میں ایک خلا اور تشنگی محسوس کرتا ہے جس داعی کے دل میں ” اللہ“ کی یاد اور اس کے شکریہ کا احساس نہ ہو۔ اس کا کام ایک فن کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے جس سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم : ﴿اِذْہَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْکَ بِاٰیٰتِیْ وَ لَا تَنِیَا فِیْ ذِکْرِیْ اِذْہَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی۔ فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی۔﴾ (طٰہٰ: 42تا45) ” موسیٰ تو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ جاؤ اور میری یاد سے غافل نہ ہونا۔ دونوں فرعون کے پاس جاؤ کیونکہ وہ سرکش ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔“ ﴿فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ بالْعَشِیِّ وَالْاِِبْکَارِ﴾ (المومن :55) ” پس اے نبی صبر کر۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے، اپنی کوتاہی کی معافی مانگ، اور صبح وشام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتا رہ۔“ (عَنِ الْمُغِیْرَۃِ (رض) قَالَ قَام النَّبِیُّ (ﷺ) حَتّٰی تَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ فَقِیْلَ لَہُ لِمَ تَصْنَعُ ھٰذَا وَقَدْ غُفِرَ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ قَالَ اَفَلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْر) (مشکوٰۃ : باب التحریض علی قیام الیل) ” حضرت مغیرہ (رض) ذکر کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) رات کو اس قدر قیام کرتے کہ آپ کے قدم سوج جایا کرتے تھے۔ آپ سے عرض کی گئی کہ آپ اس قدر کیوں قیام فرماتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : کیا مجھے اس کا شکرگزار بندہ نہیں بننا چاہیے۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ) (رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِی حَالِ الْجَنَابَۃِ وَغَیْرِہَا) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کائنات (ﷺ) ہر حال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے۔“ مسائل: 1۔ آدمی کو فرصت کے وقت اپنے رب کو ضرور یاد کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کو توجہ اور پوری رغبت کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کو یاد کرنے کے فوائد : 1۔ اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر :98) 2۔ ” اللہ“ کے ذکر سے غافل لوگ گھاٹے میں رہتے ہیں۔ (المنافقون :9) 3۔ ” اللہ“ کے ذکر سے اعراض کرنا اس کی ناراضگی کو دعوت دینا ہے۔ (الجن :17) 4۔ ” اللہ“ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب :35) 5۔ ” اللہ“ کا ذکر دلوں کے لیے سکون و اطمینان کا باعث ہے۔ (الرعد :28) 6۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ (البقرۃ :152) 7۔ ” اللہ“ کو کثرت کے ساتھ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الجمعہ :10)