وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
اور آپ کے لیے آپ کا ذکر بلند [٣] کردیا
فہم القرآن: (آیت 4 سے 6) ربط کلام : نبوت کا بوجھ ہلکا کرنے کے ساتھ رب کریم نے آپ (ﷺ) کے نام اور کام کو بھی بلند و بالا فرمادیا۔ نبوت کی ذمہ داریوں میں سب سے مشکل کام لوگوں تک توحید کی دعوت پہنچانا ہے۔ جو لوگ نبوت سے پہلے آپ (ﷺ) کو صادق اور امین کہتے تھے، دعوت توحید کی وجہ سے وہ اس قدر مخالف ہوگئے کہ انہوں نے اس بات پر تن من دھن کی بازی لگادی کہ نبی (ﷺ) کی دعوت کو کسی صورت آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے ہر حربہ استعمال کیا، یہاں تک کہ انہوں نے آپ (ﷺ) پر مختلف قسم کے الزامات لگائے اور آپ کو محمد کہنے کی بجائے مذمم کہنے لگے۔ خاکم بدھن جس کا معنٰی ہے ملامت کیا ہوا۔ اس صورت حال میں نبی (ﷺ) کا پریشان ہونا ایک فطری امر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف کفار کے ایک ایک الزام کی تردید فرمائی بلکہ آپ (ﷺ) کو ہر موقع پر عظیم تسلی اور اطمینان سے سرفراز فرمایا۔ اس پس منظر میں یہ سورت نازل ہوئی جس میں آپ کا بوجھ ہلکا کرنے کے ساتھ یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ یہ لوگ آپ کے نام اور کام کو مٹانا چاہتے ہیں لیکن ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم نے آپ کے نام اور کام کو ہمیشہ ہمیش کے لیے سربلند فرمادیا ہے۔ یقیناً ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے، بالیقین ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہوا کرتی ہے۔ ان الفاظ میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جو شخص بھی حق کے لیے کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا۔ پہلی آسانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ داعی کے لیے دعوت کے کام میں انشراح صدر پیدا فرما دیتا ہے۔ دوسری آسانی یہ ہے کہ دعوت کی راہ میں آنے والی مشکلات کو داعی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور اس راہ میں پہنچنے والی اذّیت کو اپنے لیے باعث اجر سمجھتا ہے۔ نبی (ﷺ) کو یہ نعمتیں بدرجہ اتم عطا کردی گئیں جس وجہ سے آپ نے مشکل ترین حالات میں انتہائی مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھا۔ جس کا نتیجہ نکلا کہ آپ کی جان کے دشمن آپ کے جانثار بن گئے اور آپ کی حیات مبارکہ میں آپ کی دعوت کا پرچم دس لاکھ مربع میل پر لہرانے لگا اور آپ کی زندگی میں اس انقلاب کے اثرات دور دور تک محسوس ہونے لگے۔ یہاں تک کہ اس وقت کے سب سے بڑی مملکت کے فرماروا کو آپ کی کامیابی کا اعتراف کرنا پڑا۔ مکی وفد کی قیادت ابو سفیان کر رہے تھے ان کے سامنے ایک سوال کے جواب میں ہرقل نے کہا۔ (فَإِنْ کَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَیَمْلِکُ مَوْضِعَ قَدَمَیَّ ہَاتَیْنِ وَقَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّہُ خَارِجٌ لَمْ أَکُنْ أَظُنُّ أَنَّہُ مِنْکُمْ فَلَوْ أَنِّی أَعْلَمُ أَنِّی أَخْلُصُ إِلَیْہِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَاءَ ہُ وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَہُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِہِ) (رواہ البخاری : کتاب بدء الوحی) ” جو تو کہہ رہا ہے اگر سچ ہے تو عنقریب وہ میرے قدموں کی جگہ پر قابض ہوجائے گا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ نبی مبعوث ہونے والا ہے لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا اگر میں اس کے پاس پہنچنے کی طاقت رکھتا تو میں اس کی ملاقات کو پسند کرتا اور اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔“ گویا کہ رب کریم نے مشکل ترین کام اور انقلاب آپ کے لیے آسان کردیا۔ آپ کو دعوت کے حوالے سے وہ کامیابی حاصل ہوئی جو آج تک کسی کے مقدر میں نہیں آئی اور نہ ہی قیامت تک کوئی شخص ایسی کامیابی حاصل کرپائے گا۔ افرادی قوت کے اعتبار سے آپ (ﷺ) اس طرح کامیاب ہوئے کہ لوگ جوق در جوق اور فوج در فوج حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ (سورۃ نصر) آپ (ﷺ) کا ذکر گرامی : جہاں تک آپ (ﷺ) کے ذکر مبارک کا معاملہ ہے۔ آدمی کے کلمہ پڑھنے سے لے کر قبر تک کوئی ایسا اہم مرحلہ نہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے ” لا الٰہ الا اللہ“ کے ساتھ محمد رسول اللہ کو شامل نہیں کیا۔ اس لیے آپ (ﷺ) کے عقیدت مندوں نے ان اوقات اور مقامات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر رفع ذکر کیا ہوسکتا ہے کہ کلمۂ شہادت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب کا نام ملادیا۔ نبی (ﷺ) کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، ملائکہ کیساتھ آپ پر درودبھیجا اور مومنوں کو درود پڑھنے کا حکم دیا اور جب بھی خطاب کیا تو معزز القاب سے مخاطب فرمایا جیسے ﴿یٰاَیُّھَا الْمُدَثِّرْ﴾، ﴿یٰاَیُّھَا الْمُزَمِّلْ﴾ پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی آپ کا ذکرِخیر فرمایا۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) اور ان کی امتوں سے وعدہ لیا کہ وہ آپ پر ایمان لائیں۔ آج دنیا کا کوئی آباد ملک ایسا نہیں جہاں روز وشب میں پانچ بار نبی (ﷺ) کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو۔ (ضیاء القرآن ) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کے نام، مرتبہ اور مقام کو بلند فرمادیا۔ 2۔ بلاشبہ تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن : نبی (علیہ السلام) کا مقام ومرتبہ : 1۔ آپ (ﷺ) کو پوری دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (الاعراف :158) 2۔ آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ (الانبیاء :107) 3۔ آپ (ﷺ) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب :40) 4۔ آپ کو پوری دنیا کے لیے داعی، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ (الاحزاب : 45، 46) 5۔ نبی کریم (ﷺ) کو تمام انسانوں کے لیے ر ؤف، رحیم بنایا گیا ہے۔ (التوبہ :128) 6۔ آپ (ﷺ) کی بعثت مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (آل عمران :164)