َالضُّحَىٰ
چاشت کے وقت کی قسم
فہم القرآن: (آیت 1 سے 5) ربط سورت : سورۃ الّیل کے آخر میں نیک لوگوں کے بہتر انجام کا ذکر فرمایا اور سورۃ الضّحٰی میں تین قسمیں کھانے کے بعد نبی (ﷺ) کی ذات کے حوالے سے بتلایا ہے کہ آپ کی زندگی کا آنے والا دور پہلے دور سے بہتر ہوگا مقصد یہ ہے جو شخص نیک کام کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دنیا اور آخرت بہتر کردیں گے۔ الضّحٰی کا معنٰی ہے روشن دن اور سجٰی رات کے اس وقت کو کہتے ہیں جب رات اپنی تاریکی اور سکون کے ساتھ ہر چیز پر چھا جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان اوقات کی قسمیں اٹھا کر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ آپ (ﷺ) کے رب نے آپ کو نہ چھوڑا ہے اور نہ آپ پر ناراض ہوا ہے، چھوڑنا اور ناراض ہونا تو درکنار اس نے آپ کی زندگی کا ہر آنے و الا دور پہلے دور سے بہتر بنا دیا ہے۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ نبوت کے ابتدائی ایام میں وحی کا سلسلہ کچھ دیر کے لیے موقوف کردیا گیا۔ اس مدّت کے بارے میں مفسرین اور محدثین کی مختلف آراء ہیں۔ اکثریت کی رائے کے مطابق زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن کی بتائی گئی ہے۔ اس دوران ایک طرف نبی کریم (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی محبت اور وحی کی لذّت کے بارے میں فکر مند تھے اور دوسری طرف آپ کے مخالفوں نے یہ کہہ کر آپ کی پریشانی میں اضافہ کیا کہ اس کا رب اس پر ناراض ہوگیا ہے۔ ابولہب کی بیوی نے آپ کے پاس جاکر اس حد تک زبان درازی کی کہ اے محمد (ﷺ) ! تجھ پر جو شیطان آتا تھا اس نے تجھے چھوڑ دیا ہے۔ جب آپ (ﷺ) کا غم حد سے بڑھنے لگا تو اللہ تعالیٰ نے الضحی نازل فرمائی جس میں روشن دن اور رات کی پُر سکون گھڑیوں کی قسمیں اٹھا کر تسلی دی گئی ہے کہ آپ کا رب نہ آپ پر ناراض ہوا ہے اور نہ ہی اس نے آپ سے قطع تعلق کیا ہے۔ ”وَالضُّحیٰ“ اور ” سَجٰی“ کی قسمیں اٹھا کر یہ اشارہ کیا ہے کہ جس طرح رات اور دن کا آنا جانا معمول کی بات ہے اسی طرح وحی کا آنا اور اس کے درمیان وقفہ ہونا معمول کی کارروائی ہے۔ ان قسموں میں یہ سبق بھی موجود ہے کہ جس طرح رات اور دن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اسی طرح خوشی اور غم، آسانی اور مشکل ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ جس طرح رات اور دن تبدیل ہوتے رہتے ہیں اسی طرح خوشیاں اور پریشانیاں بھی آتی جاتی ہیں لہٰذا آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ پہلے دورسے آنے والا دور آپ کے لیے بہتر ہوگا اور دنیا سے آخرت بہت ہی بہتر ہوگی۔ رب کریم کی دی ہوئی تسلی اور گارنٹی کا نتیجہ ہے کہ آپ کو یتیمی کے دور میں بہتر سے بہترکفیل عطا ہوئے، جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی رفیقہ حیات نصیب فرمائی کہ جس نے تن، من، دھن آپ کے لیے وقف کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبوت کے ابتدائی دور اور بعد میں آپ کو بڑی سے بڑی آزمائشوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر غم اور مشکل کے بعد آپ (ﷺ) کو ایسی آسانی اور خوشی عطا فرمائی جو کسی انسان کے نصیب میں نہیں آئی۔ مکہ میں دشمنوں کے مقابلے میں جانثار ساتھی ملے، رات کے وقت ہجرت کے لیے نکلے تو صرف ابوبکر (رض) آپ کے ساتھ تھے مگر جب آٹھ سال کے بعد مکہ میں داخل ہوئے تو دس ہزار جانثار مجاہد آپ کے ہم رقاب تھے۔ جونہی بیت اللہ میں قدم رکھا تو آپ (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کی جان کے دشمن آپ کے سامنے سرجھکا کر معذرت پر معذرت کررہے تھے۔ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو دس لاکھ مربع میل کی مملکت پر توحید کا پرچم لہرا رہا تھا، روم اور فارس کی حکومتیں آپ سے لرزا براندام تھیں۔ یاد رہے کہ تفسیر عزیز کے مصنف نے الضحیٰ سے مراد نبی (ﷺ) کی زلفیں لی ہیں اور اسی کو واعظ بیان کرتے ہیں حالانکہ یہ من گھڑت بات ہے۔ جس کا کسی ضعیف روایت سے بھی ثبوت نہیں ملتا۔ (أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ وَبِیَدِیْ لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِیٍّ یَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاہُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِیْ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ) (رواہ الترمذی : کتاب المناقب ) ” میں قیامت کے دن آدم کی ساری اولاد کا سردار ہوں گا مگر اس اعزاز پر فخر نہیں کرتا اور میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اس پر میں اتراتا نہیں اور قیامت کے دن آدم (علیہ السلام) سمیت تمام نبی میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور میں قیامت کے دن سب سے پہلے اپنی قبر سے اٹھوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہر وقت نبی (ﷺ) کی دستگیری فرمائی۔ 2۔ آپ (ﷺ) کی زندگی کا ہر دور پہلے دور سے بہتر تھا۔ 3۔ نبی (ﷺ) کی آخرت تمام انسانوں کی آخرت سے بہتر ہوگی۔