وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ
اور والد [٣] (آدم) اور اس کی اولاد کی قسم
فہم القرآن: (آیت 3 سے 7) ربط کلام : مکہ شہر کی قسم اٹھانے کے بعد باپ اور اس کی اولاد کی قسم اٹھا کر ہر انسان کو ایک حقیقت بتلائی گئی ہے۔ مکہ کی قسم اٹھا کر بین السطور آپ (ﷺ) کو آپ کی دعوت کی کامیابی کی خبر دی گئی ہے، اس کے بعد فرمایا کہ مجھے باپ اور اس کی اولاد کی قسم! ہم نے انسان کو مشقت جھیلنے کے لیے پیدا کیا ہے لیکن انسان سمجھتا ہے کہ کوئی اس پر قابو نہیں پاسکے گا۔ باپ اور اولاد سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی پوری اولاد ہے۔ کچھ اہل علم نے باپ سے مراد ابراہیم (علیہ السلام) اور اولاد سے مراد بنی اسماعیل (علیہ السلام) لیے ہیں۔ لیکن مناسب یہ ہے کہ باپ سے مراد آدم (علیہ السلام) لیے جائیں اور اولاد سے مراد ان کی پوری اولادسمجھی جائے اس میں ابراہیم (علیہ السلام) اور بنی اسماعیل بھی آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے باپ اور اس کی اولاد کی قسم اٹھا کر انسان کو اس کے ماں، باپ کے مرتبہ سے آگاہ فرمایا ہے، اس کے ساتھ ہی انسان کو بتلایا ہے کہ تجھے سختی جھیلنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس سختی سے مراد انسان کی پیدائش کے مختلف مراحل ہیں۔ اس میں وہ سختیاں بھی شامل ہیں جن کے ساتھ انسان کو زندگی میں واسطہ پڑتا ہے۔ انسان کو ان سختیوں کے ساتھ دوچار کرنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ انسان قدم قدم پر اس ہستی کی طرف متوجہ رہے جو ذات سختیوں کو آسانیوں میں تبدیل کرنے والی ہے، ان سختیوں میں دوسری حکمت یہ ہے کہ انسان ہر دم یہ خیال رکھے کہ میں خودمختار نہیں بلکہ مختار قوت اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو ہر وقت میری نگرانی کررہی ہے، اور جب چاہے مجھے مشکل میں ڈال سکتی ہے لہٰذا مجھے سرکش اور باغی بننے کی بجائے مختار کل ہستی کے تابع رہ کر زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اس کے لیے تیسرا سبق یہ ہے کہ اسے اپنا مال اور صلاحیتیں ایسے کاموں پر صرف کرنی چاہیے جہاں خرچ کرنے سے اس کا خالق راضی ہوتا ہے یہ تبھی ہوسکتا ہے جب انسان اپنے خالق کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ میرا خالق میری زندگی کے ایک ایک لمحہ کی نگرانی کررہا ہے اور وہی مجھے رزق دینے والا ہے، جس نے اپنے خالق کو پہچان اور نگران سمجھ لیا وہ زیادہ دیر تک فطرت کی بغاوت اور اپنے خالق کی سرکشی نہیں کرسکتا اور نہ ہی خالق کے دئیے ہوئے مال کو بے جا لٹاسکتا ہے۔ یہاں مال لوٹانے سے مراد نیکی کے کاموں پر خرچ کرنا نہیں بلکہ نمود ونمائش پر خرچ کرنا ہے جس کا ہر صورت حساب لیا جائے گا اور ایسے شخص کو دنیا میں بھی پچھتاوا ہوگا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لِرَجُلٍ وَہُوَ یَعِظُہٗ اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتِکَ قَبْلَ سَقْمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفِرَاغَکَ قَبْلَ شُغُلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ) (رواہ الحاکم) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) ایک آدمی کو وعظ و نصیحت فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے فارغ وقت کو مصروف ہونے سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو مشکلیں جھیلنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ 2۔ باغی انسان سمجھ بیٹھتا ہے کہ اسے کوئی قابو کرنے والا نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی نگرانی کرنے والاہے۔ 3۔ انسان بہت سامال فضول کاموں پر لوٹا دیتا ہے اور بعد میں اسے حسرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہر وقت انسان کی نگرانی کرنے والاہے : 1۔ تم جو بھی عمل کرتے ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (یونس :61) 2۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو جاننے والا ہے۔ (یٰس :79) 3۔ جو لوگ جہالت کی وجہ سے برائی کرتے ہیں، پھر جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے اور حکمت والا ہے۔ (النساء :17) 4۔ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النساء :32) 5۔ جو کچھ تم اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہو اللہ اس کو جاننے والا ہے۔ (النساء :39) 6۔ قیامت کا، بارش کے نازل ہونے کا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (لقمان :34) 7۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو۔ وہ تو سینے کے رازوں کو بھی جاننے والا ہے۔ (ہود :5)