فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ
لہٰذا انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز [٤] سے پیدا کیا گیا ہے؟
فہم القرآن: (آیت 5 سے 10) ربط کلام : جس خالق نے انسان پر نگران مقرر کیے ہیں وہی انسان کو ٹپکتے ہوئے پانی سے پیدا کرنے والا ہے اور اسی نے اسے قیامت کے دن زندہ کرنا اور اپنے حضور کھڑا کرنا ہے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر انسان کو اس کی تخلیق کے بارے میں متوجہ کیا اور فرمایا ہے کہ اے انسان! تجھے اپنی پیدائش پر غور کرنا چاہیے کہ تیرے رب نے تجھے کن مراحل سے گزار کر پیدا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیری ابتدا اچھلتے ہوئے پانی کے ایک قطرے سے ہوئی ہے جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے کی ہڈیوں سے نکلتا ہے۔ یقین جان! کہ تیرا رب تجھے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے نہ صرف تجھے دوبارہ پیدا کرے گا بلکہ اس دن دلوں کے تمام راز آشکارا ہوجائیں گے۔ جس کی اس کے برے اعمال کی وجہ سے گرفت کی گئی اسے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ یہاں صلب اور ترائب کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ صُلب ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیں اور ترائب کے معنٰی ہیں سینے کی ہڈیاں یعنی پسلیاں۔ چونکہ عورت اور مرد دونوں کے مادۂ تولید انسان کے جسم کے اس حصہ سے خارج ہوتے ہیں جو صلب اور سینے کے درمیان واقع ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ انسان اس پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے یہ مادہ اس صورت میں بھی پیدا ہوتا ہے جبکہ ہاتھ اور پاؤں کٹ جائیں۔ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ انسان کے پورے جسم سے خارج ہوتا ہے۔ درحقیقت جسم کے اعضاءِ رئیسہ اس کے ماخذ ہیں اور وہ سب آدمی کے دھڑ میں واقع ہیں۔ دماغ کا الگ ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ صلب دماغ کا وہ حصہ ہے جس کی بدولت ہی جسم کے ساتھ دماغ کا تعلق قائم ہوتا ہے۔ علم الجنین (embryology) رو سے یہ ثابت شدہ حقیقت کہ جنین (Foetus) کے اندر انثیین (testes) یعنی وہ غدود جن سے مادۂ منویہ پیدا ہوتا ہے، ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان گردوں کے قریب ہوتے ہیں جہاں سے بعد میں یہ آہستہ آہستہ فوطوں میں اتر جاتے ہیں۔ یہ عمل ولادت سے پہلے اور بعض اوقات اس کے کچھ بعد ہوتا ہے۔ بلکہ ان کی شریان (Artery) پیٹھ کے قریب شہ رگ (Aorta) سے نکلتی ہے اور پورے پیٹ کا سفر طے کرتی ہوئی ان کو خون مہیا کرتی ہے۔ اسی طرح حقیقت میں انثیین میں پیٹھ ہی کا جز ہیں جو منویہ اگرچہ انثیین پیدا کرتے ہیں اور کیسۂ منویہ (Seminal Vesicles) میں جمع ہوجاتا ہے مگر اس کے اخراج کا مرکز تحریک ”بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِ“ ہی ہوتا ہے اور دماغ سے اعصابی رو جب اس مرکز کو پہنچتی ہے تب اس مرکز کی تحریک (Triger action) سے کیسۂ منویہ سکڑتا ہے اور اس سے ماء دافق پچکاری کی طرح نکلتا ہے۔ اس لیے قرآن کا بیان ٹھیک ٹھیک علم طب کی جدید تحقیقات کے مطابق ہے۔ (تفہیم القرآن تفسیر سورت ہذا) مسائل: 1۔ انسان کو اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے سے نکلتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی قیامت کے دن اسے پیدا کرے گا۔ 3۔ قیامت کے دن تمام راز آشکارا ہوجائیں گے اور اس دن مجرم کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ تفسیربالقرآن : انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل : 1۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (الحجر :26) 2۔ حواکو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء :1) 3۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (آل عمران :59) 4۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر :2) 5۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون :12) 6۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر پیدا کیا۔ (الحج :5) 7۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن :67) 8۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف :37) 9۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم :20) 10۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر :11)