وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ
قسم ہے آسمان کی اور رات کو آنے والے کی
فہم القرآن: (آیت 1 سے 4) ربط سورت : البروج کے آخر میں یہ ارشاد ہوا کہ جو لوگ ” اللہ“ کے ارشادات اور قیامت کو جھٹلاتے ہیں وہ انہیں ہر جانب سے گھیرے ہوئے ہے۔ الطّارق میں نجم ثاقب کی قسم اٹھا کر بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نفس پر نگران مقرر کر رکھے ہیں اور جو شخص قیامت کا انکار کرتا ہے اسے اپنی تخلیق پر غور کرنا چاہیے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جس رب نے انسان کو عدم سے وجود بخشا ہے وہی رب قیامت کے دن انسان کو دوبارہ عدم سے وجود میں لائے گا۔ آسمان اور رات کے وقت نمودار ہونے والے ستارے کی قسم! آپ کیا جانیں کہ رات کے وقت طلوع ہونے والا کیا ہے ؟ وہ ایک چمکنے والا ستارہ ہے۔ اہل علم نے وضاحت فرمائی ہے کہ اس سے مراد وہ ستارہ ہے جو صبح صادق کے وقت طلوع ہوتا ہے اور دیکھنے والے کو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی شخص ہاتھ میں لیمپ لیے ہوئے مشرق سے مغرب کی طرف جارہا ہو۔ جوں جوں اس ستارے کے غروب ہونے کا وقت آتا ہے اسی رفتار سے صبح روشن ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس ستارے کی قسم کھا کر ثابت کیا ہے کہ جس طرح یہ ستارہ نمودار اور غروب ہوتا ہے اسی طرح انسان کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بلند وبالا آسمان اور اس ستارے کی قسم کھا کر انسان کو یہ بات سمجھائی ہے کہ اے انسان! تجھے کھلا نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ تو آسمان کے نیچے مقید ہے اور تجھ پر نگران مقرر کیے گئے ہیں، ان میں کچھ ملائکہ ہیں جو تیری حرکات و سکنات کو ضبط تحریر میں لارہے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو تیری حفاظت پر مامور ہیں۔ جب تک انہیں حفاظت کرنے کا حکم ہوتا ہے اس وقت تک تو انسان کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب اللہ کا لکھا ہوا غالب آتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں، جونہی وہ پیچھے ہٹتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر انسان پر نافذ ہوجاتی ہے اور اس کے نفاذ کے وقت کوئی طاقت انسان کو بچا نہیں سکتی پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ” اللہ“ چاہتا ہے۔ ﴿لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ﴾ (الرعد :11) ” اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے مقرر کیے ہوئے نگران ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَتَعَاقَبُوْنَ فِیْکُمْ مَلَآئِکَۃٌ باللَّیْلِ وَمَلَآئِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَیَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِیْنَ بَاتُوْا فِیْکُمْ فَیَسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَیْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَیَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ وَ اٰتَیْنٰھُمْ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر) ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا تمہارے پاس رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے فرشتے آتے ہیں اور وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ رات والے فرشتے جاتے ہیں تو ان سے ان کا رب سوال کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا فرشتے جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے ہاں پہنچے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ہم ان سے واپس ہوئے تو پھر بھی وہ نماز کی حالت میں تھے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور ستارے کی قسم اٹھا کر بتلایا ہے کہ اس نے ہر انسان پر نگران مقرر کر رکھے ہیں۔ 2۔ کچھ ملائکہ انسان کی حفاظت کرتے ہیں اور کچھ اس کے اعمال لکھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر نگر ان مقرر کر رکھے ہیں : 1۔ بے شک میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔ (ھود :57) 2۔ اللہ ہی سب کی حفاظت کرنے والاہے۔ (الانبیاء :82) 3۔ ہر ایک کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر ہیں۔ (الرعد :11) 4۔ وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ” اللہ“ نے بندوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے ہیں۔ (الانعام :61)