إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ
جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں پر ظلم و ستم ڈھایا پھر تو یہ (بھی) نہ کی ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے ایسا عذاب ہے جو جلا [٦] کے رکھ دے گا
فہم القرآن: (آیت 10 سے 11) ربط کلام : جن ظالموں نے مومنوں اور مومنات کو آگ کی خندقوں میں ڈالا ان کی سزا اور انجام۔ مفسرین نے اس واقعہ کے بارے میں کئی قسم کے خیالات کا اظہار فرمایا ہے لیکن ان میں مستند واقعہ وہ ہے جس کا ذکر حدیث کی معتبر کتاب جامع ترمذی میں پایا جاتا ہے۔ حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن اللہ کے رسول (ﷺ) نے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک جادوگر تھا اس نے اپنے بڑھاپے میں بادشاہ سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا لڑکا دیں جو مجھ سے جادو سیکھ لے بادشاہ نے ایک لڑکے کو مقرر کردیا مگر وہ لڑکا جادوگر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی ملنے لگا اور اس کی باتوں سے متاثر ہو کر ایمان لے آیا حتی کہ اس کی تربیت سے اس کا ایمان اس قدر پختہ ہوگیا کہ وہ اللہ سے اندھوں کو بینا اور کوڑیوں کو تندرست کرنے کی دعا کرتا اور اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتے۔ بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو اس نے پہلے راہب کو قتل کیا پھر اس لڑکے کو قتل کرنا چاہا مگر کوئی حربہ کارگر ثابت نہ ہوا۔ آخر کار لڑکے نے کہا کہ کہ اگر تو مجھے ہر صورت قتل کرنا چاہتا ہے تو مجمع عام میں ” بِاسْمِ رَبِّ الْغُلَامِ“ (اس لڑکے کے رب کے نام پر) کہہ کر تیر مار تو میں مرجاؤں گا۔ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور وہ لڑکا مرگیا اس پر لوگ اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اس سے کہا کہ یہ تو وہی کچھ ہوا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے دین ایمان لا رہے ہیں۔ بادشاہ اس صورتحال پر غضب ناک ہوا۔ اس نے سڑکوں کے کنارے گڑھے کھدوائے اور ان میں آگ جلوائی۔ جس شخص نے ایمان سے پھرنا قبول نہ کیا اس کو آگ میں پھینکوا دیا۔“ (رواہ الترمذی : باب ومن سورۃ البروج، قال الالبانی ھٰذا حدیث صحیح) (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إنَّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْب) (رواہ البخاری : باب التواضع ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی، میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔“ ﴿اِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ﴾ (المومن :51) ” یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد ان کی زندگی میں بھی کرتے ہیں اور آخرت میں بھی کریں گے جب گواہ کھڑے کیے جائیں گے۔“ مسائل: 1۔ جو لوگ مومن اور مومنات کو تنگ کریں گے ان کے لیے جہنم کا جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال کرنے والے مومنوں کے لیے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ 3۔ جو جنت میں داخل کردیا گیا اسے بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ تفسیر بالقرآن : ظالموں کی سزا اور نیک لوگوں کی جزا : 1۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : 7، 8) 2۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے جہنم ہے۔ (البقرۃ:71) 3۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام :160) 4۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص :84) 5۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کی سزا جہنم ہے۔ (النازعات :37) 6۔ نافرمانوں کو ہمیشہ کے عذاب کی سزادی جائے گی۔ (یونس :52) 7۔ تکبر کرنے والوں کو ذلّت آمیز سزا دی جائے گی۔ (احقاف :20) 8۔ شیطان اور اس کے پیروکاروں کو جہنم کی سزا دی جائے گی۔ (بنی اسرائیل :63) 9۔ صبر کرنے والوں کے لیے جنت جزا ہوگی۔ (الدھر :12)