فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا
پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرو اور جب اطمینان حاصل ہوجائے تو پھر پوری نماز ادا کرو۔ بلاشبہ مومنوں پر نماز اس کے مقررہ اوقات [١٤١] کے ساتھ فرض کی گئی ہے
فہم القرآن : ربط کلام : حالت جنگ اور سفر میں نماز مختصر پڑھنے کی اجازت تھی اب مقیم کو بروقت اور پوری نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ نماز کے بعد اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو۔ ذکر ایسی عبادت ہے کہ جسے کثرت کے ساتھ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ نماز بذات خود بہت بڑا ذکر ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو مقامات پر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کثرت کے ساتھ یادِ الٰہی میں مصروف رہنے کا حکم فرمایا۔ رسول اللہ (ﷺ) کے بارے میں حضرت عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے۔[ رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب ھل یتتبع المؤذن فاہ ھھناوھھنا] یہاں تک کہ رات جاگتے تو کروٹ بدلتے ہوئے بھی کوئی نہ کوئی تسبیح پڑھتے۔ اس لیے مومنوں کو حکم ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہر حال یعنی چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اپنے بستروں اور کروٹوں پر اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ تم دشمن کے مقابلہ میں کامیاب، دین و دنیا کے معاملات میں سرخرو اور اپنے خالق کی دستگیری کا شرف پاؤ گے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے اس آیت مبارکہ کی روشنی میں نماز کے اوقات مقرر فرمائے ہیں اور ہر نماز کے ابتدائی اور آخری وقت کی وضاحت فرمائی۔ لہٰذا نماز ہمیشہ اول وقت پر ادا کرنی چاہیے۔ گرمی میں نماز کو ٹھنڈے وقت میں ادا کرنے کے یہ معنٰی نہیں کہ اصل وقت سے تجاوز کردیا جائے۔ جو لوگ ظہر کا وقت دو مثل قرار دیتے ہیں۔ وہ فقہ کے علاوہ قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں پیش کرسکتے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے کفارکے لیے ذلیل کردینے والا عذاب تیار کیا ہے۔ 2۔ نماز کی ادائیگی کے بعد چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور لیٹنے کی حالت میں اللہ کا ذکر کرتے رہنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات مقرر کیے ہیں جن کا خیال رکھنا فرض ہے۔