وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز [١٣٨] مختصر کرلینے میں کوئی حرج نہیں (خصوصاً) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں تشویش میں ڈال دیں گے۔ کیونکہ کافر تو بلاشبہ تمہارے کھلے دشمن ہیں
فہم القرآن : (آیت 101 سے 102) ربط کلام : دین اپنے ماننے والوں کو بے جا تکلیف میں مبتلا نہیں کرتا۔ حالت جنگ میں اور سفر کے دوران آدمی تکلیف میں ہوتا ہے۔ لہٰذا جہاد‘ اور سفر کی حالت میں نماز جیسی عظیم عبادت میں تخفیف فرما دی گئی ہے۔ ایمان لانے کے بعد مسلمانوں پر سب سے زیادہ زور نماز کی ادائیگی اور اس کے قیام پر دیا گیا ہے۔ قیام صلوٰۃ سے مراد اس کے ارکان کی سنت کے مطابق ادائیگی اور اس کے روحانی اور معاشرتی تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے لیے ہر قسم کی رعایت بخشی گئی۔ حالت مجبوری میں نماز کے لیے تیمم ہی کافی سمجھا گیا۔ کسی وجہ سے قبلہ کی طرف منہ کرنا مشکل ہو تو یہ شرط بھی ختم کردی گئی۔ نماز میں قیام اور رکوع و سجود کرنے فرض ہیں۔ لیکن کوئی شخص کھڑا نہیں ہوسکتا تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ لے‘ بیٹھ کر نماز ادا نہیں ہوتی تو لیٹ کر ادا کرے۔ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو اشارے کے ساتھ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن نماز چھوڑنا کفر کے مترادف قرار پایا۔ لہٰذا نماز بقائمی ہوش و حواس ہر حال میں فرض ہے اور اسے جماعت کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ حالت جنگ میں خوف، اضطراب اور عجلت ہوتی ہے۔ اور حالت سفر میں بھی آدمی کو منزل مقصود تک پہنچنے کی جلدی اور گھر سے دور ہونے کی وجہ سے اضطراب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر نہایت مہربانی فرماتے ہوئے سفر میں قصر کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ حالت جنگ میں ناصرف نماز فرض ہے بلکہ جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم ہوا ہے چاہے اسلحہ اٹھا کر ہی پڑھنی پڑے۔ تاہم اس کی رکعات میں تخفیف کردی گئی کہ حالت جنگ میں سنن اور نوافل کی ادائیگی معاف کرنے کے ساتھ فرض کی چار رکعات کو دو میں تبدیل کردیا گیا یہاں تک کہ شدید ہنگامی حالات میں ایک رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ حالت جنگ میں نماز باجماعت کی ادائیگی کی کئی صورتیں رسول اللہ (ﷺ) سے ثابت ہیں جن میں چند ایک صورتیں درج ذیل ہیں : 1۔ کچھ مجاہد امام کے ساتھ نماز ادا کریں اور باقی پہرہ دیں اور امام دورکعت پڑھ کر بیٹھا رہے اس کے ساتھ پڑھنے والے مجاہد دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ پھر دوسرے لوگ آکر امام کی تیسری اور چوتھی رکعت کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کریں۔ اس طرح امام کی چار اور مجاہدین کی دو دورکعت نماز ہوگی۔ 2۔ امام دورکعت نماز پڑھائے گا ایک جماعت اس کے ساتھ ایک رکعت مکمل کرنے کے بعد پیچھے ہٹ کر دوسری رکعت از خود پڑھے گی۔ اب باقی لوگ امام کے ساتھ ایک رکعت ادا کرنے کے بعد دوسری رکعت خودمکمل کریں گے۔ اور امام دورکعت کے بعد سلام پھیرے گا۔ 3۔ تیسری صورت میں سب لوگ امام کے ساتھ نماز کے لیے کھڑے ہوں گے۔ پہلی صفوں کے لوگ امام کے ساتھ سجدہ کریں گے جبکہ پچھلے لوگ اسی طرح کھڑے رہیں گے۔ اب یہ لوگ آگے بڑھ کر سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد امام کے پیچھے کھڑے ہوں گے اور پہلے لوگ پچھلی صفوں میں کھڑے ہو کر قیام اور رکوع کرنے کے بعد کھڑے رہیں گے۔ اب یہ لوگ سجدے کرتے ہوئے تشہد بیٹھنے کے بعد امام کے ساتھ اکٹھے سلام پھیریں گے۔ (مشکوٰۃ باب نماز خوف) 4۔ شدید خوف، گھمسان کارن یا موجودہ طرز جنگ کے مطابق فوجی اپنے اپنے مورچوں میں جس حالت میں مناسب سمجھیں نماز ادا کرسکتے ہیں۔ بے شک تیمم کے ساتھ جوتوں سمیت پڑھنی پڑھے۔ مجبوری کی حالت میں قبلہ کی پابندی بھی اٹھا دی گئی۔ فرمان عالی ہے : ﴿اَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ﴾ [ البقرۃ:115] ” تم جس طرف بھی اپنے چہرے کرو گے اسی طرف ہی اللہ تعالیٰ کی توجہ کار فرما ہوگی۔“ یہ رعایتیں اس لیے عنایت فرمائیں کہ کفار کی یہ خواہش ہے کہ مسلمانوں کو کسی وقت بھی غافل پا کر یکبارگی حملہ کرکے ختم کردیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی بقا اور ہر لحاظ سے ترقی اور ان کا تحفظ چاہتا ہے۔ جس کی وجہ سے عبادت کے دوران بھی دفاع سے غفلت کی اجازت نہیں دی گئی۔ کاش مسلمان اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے دفاعی اور حربی طاقت کو بڑھاتے اور آج غیروں کے سامنے سرنگوں اور ذلیل نہ ہوتے۔ یہاں ایک اور بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ اے محبوب (ﷺ) ! آپ ان میں موجود ہوں تو بنفس نفیس امامت کروائیں کیونکہ آپ کے ہوتے ہوئے کسی کا مقام نہیں کہ وہ امامت و قیادت کرے۔ اسی سے استدلال کرتے ہوئے صحابہ (رض) نے آپ کے جسد اطہر کے ہوتے ہوئے صرف درود پڑھا تھا۔ نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔ یہاں یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ سرکاری افسران اور قوم کے رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ میں اتنی صلاحیت پیدا کریں کہ وہ امامت کروائیں۔ جب سے دینی اور دنیوی قیادت الگ الگ ہوئی۔ اسی وقت سے مذہب اور سیاست میں تفریق پیدا ہوئی۔ سیاست بےدین لوگوں کی وجہ سے کرپشن اور فساد کا منبع بنی اور امامت غریب لوگوں کی بنا پر غیر اہم ہوگئی۔ نبی اکرم (ﷺ) کے اسفار کو سامنے رکھتے ہوئے مسافت کے تعین میں علماء کرام کی مختلف آراء ہیں امام بخاری (رض)‘ امام احمد بن حنبل (رح) اور امام ابو حنیفہ (رح) 48میل جبکہ دوسرے علماء شہر کی حدود سے باہر عرب کے ٩ میل، ہمارے پرانے ساڑھے تیرہ میل اور موجودہ پیمائش کے مطابق (تقریباً 22کلو میٹر) کے قائل ہیں۔ بعض علماء علمی موشگافیوں میں پڑ کر یہ کہتے ہیں کہ اس وقت سفر کی سہولتوں کا فقدان تھا۔ آج سڑکیں ہموار اور سواریاں تیز رفتار ہیں اس وجہ سے ٩ میل کی مسافت پر قصر نہیں کرنا چاہیے بعض علماء تو اس طرح نماز پڑھنے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ معلوم ہونا چاہیے کہ شریعت کے پیش نظر کوئی مخصوص علاقہ یا زمانہ نہیں ہوتا۔ آج بھی پہاڑی علاقوں میں پگڈنڈیوں کے ذریعے ٩ میل بالخصوص میدانی علاقے کے رہنے والوں کے لیے دل ہلا دینے والا سفر ہے۔ شریعت کا مطمع نظر لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ لہٰذا شریعت کے مقصد کو فوت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ کیونکہ خالق کائنات کو معلوم تھا اور ہے کہ دنیا میں کون کون سی ایجادات ہوں گی۔ اس لیے شریعت کو مکمل سمجھنا چاہیے اور اپنی طرف سے قیل و قال کر کے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہییں۔ قصر کتنے دن ؟ جس طرح مسافت کی تعیین میں علماء کے مختلف خیالات ہیں اسی طرح قصر کے ایام کے بارے میں اختلافات ہیں کیونکہ بعض وجوہات کی وجہ سے نبی اکرم (ﷺ) سے قصر کے ایام میں کمی بیشی ثابت ہے جو لوگ تین سے زیادہ دن قصر کرنے کے قائل ہیں وہ اپنے موقف کی تائید میں انہی روایات کا حوالہ دیتے ہیں جو علماء تین دن کے قائل ہیں وہ ان روایات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) تردد کی کیفیت میں تھے جیسا کہ فتح مکہ کے موقعہ پر پندرہ سے انیس دن قصر کرنے کی روایات ہیں ان کا موقف یہ ہے کہ انتظامی امور نمٹانے کی وجہ سے آپ (ﷺ) تردد میں تھے کہ آج رخصت ہوتے ہیں یاکل۔ ایسی صورت میں پندرہ یوم کجا کئی مہینے بھی قصر کی جاسکتی ہے لہٰذا تین دن کے قائل علماء کے دلائل یہ ہیں کہ آپ نے مہمان نوازی تین دن قرار دی ہے۔[ رواہ البخاری : کتاب الرقاق] اس کے بعد مہمان کے ساتھ مقیم جیسا سلوک کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح حج کے موقع پر آپ (ﷺ) کا ارشاد تھا کہ مکہ سے باہر رہنے والے لوگ تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہ کریں۔[ رواہ النسائی : کتاب تقصیر الصلاۃ فی السفر] کیونکہ صحابہ مکہ سے ہجرت کرچکے تھے اس لیے تین دن سے زیادہ ٹھہرنا مقیم ہونے کے مترادف ہوگا۔ سفر میں نفلی نماز : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) یَقُوْلُ صَحِبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) فَکَانَ لَایَزِیْدُ فِی السَّفَرِ عَلٰی رَکْعَتَیْنِ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ کَذٰلِکَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب من لم یتطوع فی السفر دبرا لصلاۃ وقبلھا] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (ﷺ)، ابو بکر، عمر عثمان (رض) کے ساتھ رہا ہوں وہ سفر میں صرف دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔“ دو نمازوں کو اکٹھا کرنا : (عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ (رض) أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِذَا أَرَادَ أَنْ یَّسِیْرَ یَوْمَہٗ جَمَعَ بَیْنَ الظُّھْرِ وَالْعَصْرِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَّسِیْرَ لَیْلَہٗ جَمَعَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ) [ مؤطا امام مالک : کتاب النداء للصلاۃِ] ” حضرت علی بن حسین (رض) کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ (ﷺ) جب دن کے وقت سفر کا ارادہ کرتے تو ظہر اور عصر کی نماز کو جمع فرماتے اور جب رات کو سفر کرنا چاہتے تو مغرب اور عشاء کی نماز کو اکٹھا کرتے تھے۔“ مسائل : 1۔ سفر کے دوران نماز قصر کرنے کی اجازت ہے۔ 2۔ کفار مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑتے۔ 3۔ کافر مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں۔ 4۔ جنگ کے دوران حالت نماز میں اسلحہ پہنے رکھنے کی اجازت ہے۔ 5۔ مسلمانوں کو سستی اور غفلت کی بنا اپنے آپ پر کفار کو حملہ کرنے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ 6۔ بارش اور جسمانی تکلیف کی وجہ سے حالت نماز میں اسلحہ رکھ دینا جائز ہے۔ 7۔ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو امامت کے فرائض خود سر انجام دینے چاہییں۔ 8۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔