كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ
ہرگز نہیں [٥]۔ بدکردار لوگوں کے اعمال نامے قید خانے [٦] کے دفتر میں ہوں گے
فہم القرآن: (آیت 7 سے 17) ربط کلام : جس دن لوگوں کو رب العالمین کے حضور پیش کیا جائے گا اس دن کے لیے مجرموں کے اعمال ناموں کا اندراج سجّین میں محفوظ ہے۔ دنیا میں بے شمار انسان بالخصوص پیشہ ور مجرم اس طریقے سے جرم کرتے ہیں کہ وہ اپنے جرم کا کوئی نشان باقی نہیں چھوڑتے جس وجہ سے وہ سزا سے بچ جاتے ہیں ایسے لوگوں کو بالخصوص خبر دار کیا گیا ہے۔ کسی مجرم کا کوئی جرم ایسا نہیں جسے سجّین میں درج نہیں کیا جاتا۔ اے نبی (ﷺ) ! آپ نہیں جانتے کہ وہ سجّین کیا ہے ؟ وہ مجرمین کے جرائم کا لکھا ہوا ریکارڈ ہے جو قولاً یا فعلاً قیامت کے دن کو جھٹلاتے ہیں۔ قیامت کو وہی شخص جھٹلاتا ہے جو حدوداللہ سے نکل جانے والا اور گنہگار ہے۔ جب اس کے سامنے ہمارے فرامین پڑھے جاتے ہیں بالخصوص جن میں قیامت کے حساب و کتاب اور احتساب کا ذکر ہوتا ہے تو وہ اس کا انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ قیامت قائم نہیں ہوگی۔ یہ بیان ہونے والی کہانیاں بڑی مدت سے سن رہے ہیں، ان کے ذریعے محض لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قیامت کو جھٹلانے والوں کے پاس قیامت کے انکار کی کوئی دلیل نہیں مگر اس کے باوجود یہ انکار کرتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے گناہوں کا زنگ ان کے دلوں پر جم چکا ہے جس وجہ سے قیامت کی تکذیب کرتے ہیں۔ ان کے انکار کی ایک سزا یہ ہوگی کہ اپنے رب کے دیدار سے محروم رکھے جائیں گے۔ حالانکہ رب کریم کا دیدار جنت کی نعمتوں سے بھی زیادہ باکمال، بابرکت اور بے انتہا خوشی کا باعث ہوگا۔ مجرموں کو جہنم میں پھینک کر کہا جائے گا کہ یہ وہ جہنم اور قیامت کا دن ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ اِذَا دَخَلَ اَہْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی تُرِیْدُوْنَ شَیْئًا اَزِیْدُکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ اَلَمْ تُبَیِّضْ وُجُوْہَنَا اَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ وَ تُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ قَالَ فَیَکْشِفُ الْحِجَابَ فَمَا اُعْطُوْا شَیْئًا اَحَبَّ اِلَیْہِمْ مِنَ النَّظَرِ اِلٰی رَبِّہِمْ عَزَّوَجَلَّ ثُمَّ تَلَا ھٰذِہِ الْآیَۃَ ﴿لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ﴾) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب إثبات رؤیۃ المؤمنین فی الآخرۃ ربھم سبحانہ) ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا : جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تم مزید کوئی نعمت چاہتے ہو جو تمہیں عطا کروں؟ وہ عرض کریں گے اے اللہ! کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں فرمایا؟ آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا؟ اور آپ نے ہمیں دوزخ سے نہیں بچایا؟ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا : تب اللہ تعالیٰ اپنے نور کا پردہ اٹھائیں گے۔ جنتی کو ایسی کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ہوگی جو پروردگار کے دیدار سے انہیں زیادہ محبوب ہو، اس کے بعد آپ (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” جن لوگوں نے اچھے عمل کیے ان کے لیے جنت ہے اور مزید بھی۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْئَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ ﴿ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ) ” ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو اس گناہ کی سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل: 1۔ جہنمی کے نام اور کام سجین میں لکھے جاتے ہیں جو ایک کھلی کتاب ہے۔ 2۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے اس دن ہلاکت اور بربادی ہوگی۔ 3۔ قیامت کو جھٹلانے والا حد سے زیادہ گنہگار اور مجرم ہوتا ہے۔ 4۔ قیامت کو جھٹلانے والے قیامت کے دلائل کو پہلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیتے ہیں۔ 5۔ لوگوں کے دلوں پر ان کے گناہوں کا زنگ چڑھ جاتا ہے۔ 6۔ قیامت کی تکذیب کرنے والے رب کریم کے دیدار سے محروم ہوں گے۔ 7۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کو جہنم میں پھینک کر کہا جائے گا کہ یہی قیامت کا دن اور جہنم ہے جن کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ تفسیربالقرآن : جہنمی کا انجام : 1۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جاۓ گا۔ (التوبہ :35) 2۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب وہ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکائیں گے۔ (بنی اسرائیل :97) 3۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان :43) 4۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پئیں گے اور اس طرح پئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : 54تا55) 5۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکہف :29) 6۔ جہنمی کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم :16) 7۔ جہنمی کے جسم بار بار بدلے جائیں گے تاکہ انہیں پوری پوری سزادی جائے۔ (النساء :56)