سورة النسآء - آیت 95

لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو لوگ بغیر کسی معذوری [١٣٢] کے بیٹھ رہیں (جہاد میں شامل نہ ہوں) اور جو لوگ اپنی جانوں اور اپنے اموال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ان دونوں کی حیثیت برابر نہیں ہوسکتی۔ اللہ نے آپ نے جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ درجہ رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک [١٣٣] سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کر رکھا ہے تاہم بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں جہاد کرنے والوں کا اللہ کے ہاں بہت زیادہ جر ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 95 سے 96) ربط کلام : خطاب جہاد میں پہلے مسلمانوں کو حالات کے مطابق انفرادی اور اجتماعی طور پر قتال فی سبیل اللہ کا حکم دیا اس کے بعد جہاد کے احکامات اور اس کے متعلق ضمنی ہدایات دیتے ہوئے قتال فی سبیل اللہ کی عظمت اور برکت بیان فرمائی پھر قتال میں ہونے والی کوتاہیوں اور غفلتوں کے بارے میں احتیاط کا حکم دیا۔ اب مجاہدین کا مرتبہ و مقام بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر مومن کی بڑی قدرو منزلت ہے۔ لیکن ایسے مومن جو بغیر کسی مجبوری اور شرعی عذر کے قتال فی سبیل اللہ میں براہ راست حصہ لینے کی بجائے دنیاوی کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے مال نچھاور اور جانیں نثار کرتے ہیں ان کا مرتبہ و مقام دوسرے مومنوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ گو اللہ تعالیٰ نے ہر ایمان دار کے ساتھ اس کے اعمال اور اخلاص کے مطابق درجات کی بلندی اور جنت کے وعدے کیے ہیں جو ہر صورت پورے ہو کر رہیں گے۔ لیکن اس کے باوجود مومن مجاہدین کا مرتبہ جہاد سے پیچھے رہنے والوں کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ ہے جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ عام مومنوں کی رو حیں عالم برزخ میں مقام علّیّین میں ہوتی ہیں جبکہ مجاہدین کی ارواح اللہ تعالیٰ کے عرش تلے جلوہ افروز اور براہ راست جنت کے نظارے کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخشتے ہوئے انہیں اپنی خصوصی رحمت سے نوازتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَأَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْجَلَسَ فِیْ أَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَلَا نُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ : إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ مائَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ قَالَ وَ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْھَارُ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جو اللہ و رسول پر ایمان لایا اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اسے جنت میں داخل کرنا اللہ پر حق ہے اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی پیدائش کے علاقہ میں بیٹھا رہا۔ صحابہ نے کہا اللہ کے رسول! تو کیا ہم لوگوں کو خوشخبری نہ دے دیں؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجات بنائے ہیں ہر دو درجے کا درمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ جتنا ہے جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ یہ جنت کا وسط اور اعلیٰ جگہ ہے راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپررحمان کا عرش ہے اور وہاں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔“ (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یْکَرِبَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () لِلشَّھِیْدِ عِنْدَ اللّٰہِ سِتُّ خِصَالٍ یُغْفَرُ لَہٗ فِیْ أَوَّلِ دَفْعَۃٍ وَیَرٰی مَقْعَدَہٗ مِنَ الْجَنَّۃِ وَیُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَیَأْمَنُ مِنَ الْفَزَعِ الْأَکْبَرِ وَیُوْضَعُ عَلٰی رَأْسِہٖ تَاجُ الْوَقَارِ الْیَاقُوْتَۃُ مِنْھَا خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَافِیْھَا وَیُزَوَّجُ اثْنَتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ زَوْجَۃً مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ وَیُشَفَّعُ فِیْ سَبْعِیْنَ مِنْ أَقَارِبِہٖ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل الجھاد، باب فی ثواب الشھید] ” حضرت مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرے ہیں کہ اللہ کے رسول (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ہاں شہید کے چھ انعامات ہیں (1) اس کے سب گناہ معاف کرکے اسے جنت میں اس کا مقام دکھلایا جاتا ہے۔ (2) قبر کے عذاب سے محفوظ ہوگا۔ (3) روز قیامت گھبراہٹ سے مامون ہوگا۔ (4) قیامت کے دن اس کے سر پر عزت ووقار کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک موتی دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ (5) اس کی بہتر حوروں سے شادی کی جائے گی۔ (6) اور اس کے ستر قریبی رشتہ داروں کے بارے میں سفارش قبول کی جائے گی۔“ (عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدِ السَّاعِدِیِّ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () قَالَ رِبَاطُ یَوْمٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَاعَلَیْھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللّٰہ] ” حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا اللہ کے راستے میں ایک دن کا پہرہ دینا دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے بہتر ہے۔“ مسائل : 1۔ گھروں میں بیٹھنے والے مومنوں سے مجاہدین بہتر ہیں۔ 2۔ مجاہدین کو اللہ تعالیٰ نے بلندمرتبہ و مقام عطا فرمایا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مومن کے ساتھ اس کے اعمال کے مطابق جزا کا وعدہ فرمایا ہے۔ 4۔ مجاہدین اور دوسروں کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش اور رحمت ہوگی۔ تفسیر بالقرآن: مجاہدین کا مرتبہ: 1۔ مجاہد اور غیر مجاہد برابر نہیں۔ (النساء: 95) 2۔ مجاہدین عذاب الیم سے نجات پائیں گے۔ (الصف: 10، 11) 3۔ شہید کے لیے مغفرت۔: (آل عمران: 157) 4۔ مجاہد کے لیے جنت۔ (محمد: 6) 5۔ مجاہدین سے اللہ تعالی کی محبت۔ (الصف: 4) 6۔ شہید زندہ ہیں وہ اللہ کے ہاں رزق پاتے اور بے خوف وغم ہوتے ہیں۔ (آل عمران: 170، 171)