إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ
جب سورج لپیٹ [٢] لیا جائے گا
فہم القرآن: (آیت 1 سے 6) ربط سورت : سورت عبس کا اختتام اس بات پر کیا گیا کہ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں ان کے چہروں پر ذلّت اور سیاہی چھائی ہوگی۔ التکویر میں قیامت کے ابتدائی مراحل ذکر فرما کر بتلایا ہے کہ انسان نے دنیا میں رہ کر جو کچھ کیا ہوگا وہ قیامت کے دن اس کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ اس حالت میں کہ اس کے ایک طرف جہنم دھک رہی ہوگی اور دوسری طرف جنت مہک رہی ہوگی۔ اس سورۃ کی ابتدا میں قیامت کے پہلے ہولناک مرحلہ کا منظر پیش کیا گیا ہے اسرافیل جونہی پہلی صور پھونکے گا تو زمین و آسمانوں میں ہلچل مچ جائے گی۔ ہر جاندار موت کے گھاٹ اتر جائے گا یہاں تک کہ سورج اپنی روشنی اور حرارت کھو بیٹھے گا۔ جس کے لیے ” کُوِّ رَتْ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ” کُوِّ رَتْ“ کا لفظ تکویر سے نکلا ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ کسی چیز کے لپیٹنے کے معنٰی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے عرب ” تکویر العمامہ“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں یعنی دستار کو سر پر لپیٹنا۔ سورج کے لیے یہ لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ سورج کی روشنی اس کے چار سو پھیلی ہوتی ہے یہ روشنی قیامت کے دن سمٹ کر بالآخر ختم ہوجائے گی۔ اس مناسبت سے فرمایا ہے کہ جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔ آج سورج ایک کُرّہ کی شکل میں موجود ہے اسے بے نور کرنے کے ساتھ سکیڑ دیا جائے گا۔ شمسی نظام میں چاند، ستارے اور سورج آپس میں کسی نہ کسی لحاظ سے منسلک ہیں، جب سورج، چاند اور ستاروں کا آپس میں اتصال ختم ہوجائے گا تو چاند، ستارے اور سورج بھی بے نور ہو کر گر پڑیں گے۔ صور پھونکنے کی وجہ سے زمین میں انتہادرجے کے زلزلے ہوں گے جن سے پہاڑوں کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیں گی اور یہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں گے اور بالآخر ریت کے ذرّات بن کر اڑنے لگیں گے، چوپاؤں اور وحشی جانوروں کی کیفیت یہ ہوگی کہ جس شیر اور بھیڑیے کا کام پھاڑ ڈالنا ہے وہ قیامت کی وحشت کی وجہ سے اس قدر گھبرائے ہوئے ہوں گے کہ کسی پر پنجہ اٹھانے کی سکت نہیں پائیں گے، یہاں تک کہ سانپ اور بچھو بھی کسی کو کاٹ نہیں سکیں گے۔ اس حالت میں جنگل کے جانور ایک دوسرے کے ساتھ سمٹے اور سہمے ہوئے ہوں گے۔ دس ماہ کی حاملہ اونٹنی بھی اپنا حمل گر ادے گی اور مدہوش پھرے گی کوئی اس کا والی وارث نہیں ہوگا۔ حاملہ اونٹنی کا ذکر فرما کر بات ثابت کی ہے کہ لوگ اپنی عزیز سے عزیز تر چیزکو بھی بھول جائیں گے۔ یاد رہے کہ نزول قرآن کے وقت عربوں کے ہاں دس ماہ کی حاملہ اونٹنی کی بڑی قدروقیمت تھی۔ اس سے ان کے مال میں اضافہ ہوتا تھا، وہ اس اونٹنی کا دودھ پیتے اور اسے سواری کے لیے استعمال کرتے تھے، اس بنا پر عرب اس اونٹنی کا دوسرے جانوروں سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ قیامت کی وحشت کی وجہ سے اونٹوں کے چرواہے حاملہ اونٹنی سے بھی بے پرواہ ہوں گے۔ قیامت کی وحشت سے صرف زمین و آسمانوں میں ہلچل نہیں مچے گی بلکہ سمندر کا پانی بھی آگ بن کر بھڑکنے لگے گا۔ سائنس نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ پانی دو گیسوں پر مشتمل ہوتا ہے آکسیجن اور ہائیڈروجن۔ آکسیجن کا کام آگ کو بجھانا اور ہائیڈروجن آگ کو تیز کرتی ہے، اس دن سمندر کا پنی ہائیڈروجن بن کر آگ کی شکل اختیار کرجائے گا۔ (عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ (رض) حَدَّثَنَا أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ یُکَوِّرَانِ فِیْ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ فَقَالَ الْحَسَنُ مَا ذَنْبَہُمَا ؟ فَقَالَ إِنِّیْ أُحَدِّثُکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَسَکَتَ الْحَسَنُ) (الابانۃ الکبریٰ لابن بطۃ : باب ذکر ما جاءت بہ السنۃ من طاعۃ رسول اللہ (ﷺ) ) ” حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کیا کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند کو اکٹھا جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ حضرت حسن (رض) نے پوچھا ان کا جرم کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا میں تمہیں نبی (ﷺ) کی حدیث سنا رہا ہوں ان کی یہ بات سن کر حضرت حسن (رض) خاموش ہوگئے۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن اللہ کے حکم سے ہر چیز تباہ کردی جائے گی۔ 2۔ قیامت کے دن پہاڑوں کو روئی کی شکل میں اڑا دیا جائے گا۔