فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے کھانے کی طرف دیکھے
فہم القرآن: (آیت 24 سے 32) ربط کلام : انسان کی خوراک سے قیامت کا ثبوت۔ اس سے پہلے انسان کو اس کی تخلیق کے مختلف مراحل کا ذکر فرما کر قیامت کے دن اٹھائے جانے کا ثبوت مہیا فرمایا۔ اب انسان کو اس کی خوراک کے حوالے سے سمجھایا جارہا ہے کہ اے انسان! تجھے اپنے کھانے پینے پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تیری خوراک کا کس طرح بندوبست کرتا ہے ؟ ارشاد ہوا کہ یقیناً ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور ہم نے زمین کو پھاڑا، پھر ہم نے اس میں اناج اگایا، اناج میں انگور، سبزیاں، زیتون، کھجوریں، گنجان اور لہلاتے ہوئے باغ، ہر قسم کے پھل اور چارہ پیدا کیا، انہیں تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ انسان کو اس کی اور چوپاؤں کی خور اک کا حوالہ دے کر یہ بات سمجھائی ہے کہ اے قیامت کا انکار کرنے والو! دیکھو اور غور کرو! کہ زمین میں پڑے ہوئے دانے کو اس سے کون نکالتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا اس دانے کو کوئی نکالنے اور اگانے والا نہیں ہے۔ وہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے، اس کے سوا کوئی بارش نازل نہیں کرسکتا۔ بارش کی وجہ سے زمین میں نم پیدا ہوا اور اس نَم کی وجہ سے زمین میں پڑا ہوا بیج پھول پڑا اور ہر دانہ اپنی اصلیت کی بنیاد پر زمین سے شگوفے یا تنے کی شکل میں نکل پڑتا ہے ان میں انگور، سبزیاں، زیتون، کھجوریں اور مختلف قسم کے باغات ہیں، ان میں کچھ درخت اور پودے پھل دار ہوتے ہیں اور کچھ چارے کے کام آتے ہیں۔ دانے کے زمین سے نکلنے اوراُگنے کے اصول کی بنیاد پر ہی انسان کی زندگی کو قیاس کرنا چاہیے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دانہ زمین میں پرورش پاتا اور نکلتا ہے اور انسان رحم مادر میں پرورش پاتا اور اپنی ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے تخلیق کا عمل تو ایک جیسا ہے۔ فرق یہ ہے کہ جاندار چیزوں کے علاوہ ہر چیز مٹی کے ساتھ بالآخر مٹی ہوجاتی ہے لیکن ہر جاندار کو قیامت کے دن اٹھایا جانا ہے پھر جانداروں کے درمیان فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جنوں اور انسانوں کو قیامت کے دن اٹھاکر اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا اور حساب و کتاب کے بعد نیک لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا اور مجرموں کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا اور باقی جاندار چیزوں کا معاملہ محشر کے میدان میں نپٹا کر انہیں ختم کردیا جائے گا۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) (رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ مسائل: 1۔ انسان اپنے کھانے پر غور کرے تو اپنے رب کو پہچان جائے گا اور قیامت پر یقین کر جائے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین سے پانی کے ذریعے بیج نکالتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی چوپاؤں کے لیے چارہ پیدا کرنے والاہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے مختلف قسم کے پھل، سبزیاں اور اناج پیدا کیا ہے۔ تفسیربالقرآن : قرآن مجید میں پھلوں اور سبزیوں کا ذکر : 1۔ اے ہمارے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے قریب ٹھہرایا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں لوگوں کے دل ان کی طرف مائل فرما دے اور انھیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔ (ابراہیم :37) 2۔ ” اللہ“ نے پانی کے ذریعے پھلوں سے رزق عطا فرمایا : (البقرۃ:22) 3۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے برکت والا پانی نازل فرما کر اس کے ذریعے بہت سے باغات سرسبز وشاداب کر دئیے۔ ( ق :9) 4۔ ” اللہ“ نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے مختلف انواع کے پھل پیدا فرمائے۔ (فاطر :27) 5۔ ” اللہ“ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل :11) 6۔ ” اللہ“ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون : 19، یٰس :34) 7۔ ” اللہ“ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام :99) 8۔ ” اللہ“ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جوذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام :141)