إِلَّا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَن يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ ۚ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا
البتہ اس حکم سے وہ منافق مستثنیٰ ہیں [١٢٤] جو ایسی قوم سے جاملیں جس سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہو یا ایسے منافق بھی مستثنیٰ ہیں جو تمہارے پاس دل برداشتہ آتے ہیں وہ نہ تمہارے خلاف لڑنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنی قوم سے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کردیتا پھر وہ تمہارے خلاف لڑائی کرتے۔[١٢٥] اب اگر وہ کنارہ کش رہتے ہیں اور لڑائی پر آمادہ نہیں اور تمہیں صلح کی پیش کش کرتے ہیں۔ تو پھر اللہ نے ان پر تمہاری دست درازی کی کوئی گنجائش نہیں رکھی
فہم القرآن : ربط کلام : ایسے منافقوں اور کافروں سے لڑنا اور انہیں قتل کرنا ضروری ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار ہوں۔ یہاں ان کفار اور منافقوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جن کے ساتھ مسلمانوں کا بقائے باہمی کا معاہدہ ہو یا وہ اسلام اور مسلمانوں کے راستے میں حائل نہ ہوں۔ یہ بات پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ اسلام جنگ جو مذہب نہیں اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ وہ ایسے لوگوں سے لڑنے کی اجازت نہیں دیتا جو صلح جو ہوں اور اسلام کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ یہاں اس بات کا اعادہ فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں سے لڑنے کی تمہیں اجازت نہیں جو تمہاری حلیف قوم کے ساتھی ہیں یا وہ تمہارے ساتھ مل کر لڑنا یا تمہارے مخالفوں کے ساتھ مل کر تم سے لڑنا پسند نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تمہیں ہرگز نہیں لڑنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردیتا۔ اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ لڑنے سے گریز کریں اور تم سے صلح کرنا چاہتے ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے لڑنے کا تمہارے لیے کوئی جواز نہیں بنایا۔ مسائل : 1۔ عہد و پیمان والے کفار کے ساتھ لڑنا جائز نہیں۔