فَإِذَا جَاءَتِ الطَّامَّةُ الْكُبْرَىٰ
پھر جب وہ عظیم آفت [٢٤] آجائے گی
فہم القرآن: (آیت 34 سے 41) ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والے قیامت کی ہولناکیوں اور ان کی کیفیت کو نہیں جانتے اس لیے قیامت کا انکار اور اس سے لاپرواہی کرتے ہیں۔ ان کی لاپرواہی کو دور کرنے کے لیے قیامت کی ہولناکیوں اور اس کی ہیبت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس قیامت کا لوگ انکار کرتے ہیں اس کی ابتدا ہی ایسے زور دار دھماکے سے ہوگی کہ جو ہر چیز کو ہلا کے رکھ دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے سوا زمین آسما نوں میں کوئی چیز باقی نہیں رہے گی اس کے لیے یہاں دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ” اَلطَّآمَّۃُ الْکُبْرٰی“ کا معنٰی کسی چیز کا لبالب بھرا ہونا ہے۔ ” الکبریٰ“ یعنی قیامت سب سے بڑی آفت ہوگی اور وہ اپنی حولناکیوں کے اعتبار سے ہمہ گیر ہوگی جس کی ابتدا اسرافیل کے صور سے ہوگی جونہی اسرافیل صور میں پھونک مارے گا تو ہر چیز ہل جائے گی۔ اس دن انسان اپنے کیے کے بارے میں فکر مند ہوگا اور ہر انسان اپنے ماضی کے بارے میں سوچ ہی رہا ہوگا کہ اس کے سامنے جہنم کھڑی کردی جائے گی۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کا راستہ اختیار کیا اور آخرت کے مقابلے میں دنیا کو مقدم جانا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور جو اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے بچائے رکھا اس کا مقام جنت ہوگا۔ قرآن مجید نے اس مقام پر جہنم سے بچنے اور جنت میں داخلے کے لیے دو بنیادی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کو سرکشی سے بچایا اور دنیا پر آخرت کو مقدم جانا اور ہر حال میں اپنے رب سے ڈرتارہا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے اس کے الٹ زندگی اختیار کی وہ جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا تم میں سے ہر کسی کے ساتھ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام کریں گے، اللہ تعالیٰ اور اس شخص کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، ہر انسان دیکھ لے گا کہ اس نے کیا عمل کیے ہیں، آدمی دیکھے گا تو اس کے سامنے آگ ہوگی جو بھی تم میں سے استطاعت رکھتا ہے وہ آگ سے بچنے کی کوشش کرے چاہے بے شک کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ۔۔ جو یہ بھی نہ پائے تو وہ اچھی بات کہے۔“ (رواہ البخاری : باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم) مسائل: 1۔ قیامت بہت بڑی آفت ہے۔ 2۔ قیامت کے دن ہر انسان اپنے کیے کو یاد کرے گا۔ 3۔ قیامت کے دن جہنم لوگوں کے سامنے لائی جائے گی۔ 4۔ جس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور دنیا کو آخرت سے مقدم جانا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ 5۔ جو اپنے رب سے ڈرا اور اس نے اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکے رکھا اس کا مقام جنت ہوگا۔ تفسیربالقرآن : جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اور آخرت پر دنیا کو مقدم جانا وہ تباہ ہوجائے گا : 1۔ علم ہونے کے باوجود دو سروں کے خیالات کی پیروی کرنیوالا اللہ کی نصرت سے محروم ہوتا ہے۔ (البقرۃ:120) 2۔ علم ہونے کے باوجود کفار کے خیالات کو اپنانا ظالموں میں شامل ہونا ہے۔ (البقرۃ:145) 3۔ کتاب اللہ کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ (المائدۃ:48) 4۔ خواہشات کی اتباع کرنے کی بجائے کتاب اللہ کے مطابق فیصلے ہونے چاہئیں۔ (المائدۃ:49) 5۔ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ (صٓ:26) 6۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا تباہ ہوجاتا ہے۔ (طٰہٰ:16) (القصص :50) 7۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا اپنی خواہشات کو الٰہ بنا لیتا ہے۔ (الفرقان :43) 8۔ حق کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے سے زمین و آسمان میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ (المؤمنون :71)