مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا
جو شخص بھلائی کی سفارش کرے گا تو اس سے اسے حصہ ملے گا اور جو برائی کی [١١٨] سفارش کرے گا اس سے بھی وہ حصہ پائے گا اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : جہاد کے لیے مسلمانوں کو ابھارنا اور دین کی نشرو اشاعت کی تبلیغ کرنا بھی جہاد ہے۔ جہاد کے دوران پیدا ہونے والے ضمنی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہوئے جہاد کی ترغیب اور دین کی تبلیغ کو اچھی سفارش اور اس کوشش کو جہاد کا حصہ شمار کیا ہے۔ کیونکہ ترغیب دلائے بغیر کوئی آدمی لڑنے مرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ترغیب اور تبلیغ کو قرآن مجید نے سورۃ الفرقان آیت ٥٢ میں جہاد کبیر قرار دیا ہے۔ اسی کی وضاحت کرتے ہوئے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ افضل ترین جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔ [ رواہ ابو داؤد : کتاب الملاحم، باب الأمر والنھی] اسے یہاں سفارش کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اس میں رسول اللہ (ﷺ) اور نیکی کی سفارش کرنے والے ہر شخص کو تسلی اور مسلسل ملنے والی جزائے خیر کی خوش خبری دی گئی ہے بشرطیکہ وہ خود بھی حتی المقدور اس پر عمل کرنے والا ہو۔ سفارش کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں۔ نیکی اور خیر کے کام کے لیے کسی کو آمادہ اور تیار کرنا‘ اس کے مقابلے میں برائی کی سفارش اور اس کی ترغیب دینا۔ نیکی کی سفارش اور تبلیغ پر مسلسل اور برابر ثواب ملتا رہتا ہے جبکہ برائی پر آمادہ کرنایا اس کی سفارش اور ترغیب دینے والا اس کے گناہ میں حصہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اور تنبیہ کے طور پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کسی پرنگران ہے۔ سفارش کے مطابق ہر شخص جزاء و سزا پائے گا لہٰذا سفارش سمجھ سوچ کر کرنی چاہیے۔ غلط سفارش مجرم کی رہائی کے لیے ہو یا کسی نااہل کو منصب دلانے کی خاطر ہوجائز نہیں کیونکہ مجرم کی سفارش کرنے سے جرائم کی حوصلہ افزائی اور مظلوم پر مزید ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ جس قوم میں یہ سلسلہ عام ہوجائے اس کا تباہی کے گھاٹ اترنا یقینی ہوجاتا ہے۔ جہاں تک کسی نااہل آدمی کو نوکری اور منصب دلانے کا معاملہ ہے اس سے حقدار کا حق تلف ہونے کے ساتھ آہستہ آہستہ پورا نظام ہی بگاڑ اور کمزوری کا شکار ہوجاتا ہے۔ نااہل اور کرپٹ شخص جتنے بڑے منصب پر ہوگا اتنا ہی ملک و ملت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے اس قسم کی سفارش قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ایسی سفارش کرنے سے منع کیا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) !أَلَا تَسْتَعْمِلُنِیْ قَالَ فَضَرَبَ بِیَدِہٖ عَلیٰ مَنْکِبِیْ ثُمَّ قَالَ یَا أَبَا ذَرٍّ ! إِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَإِنَّھَآ أَمَانَۃٌ وَإِنَّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَّنَدَامَۃٌ إِلَّا مَنْ أَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَأَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ فِیْھَا) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ، باب کراھۃ الإمارۃ بغیر ضرورۃ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے عامل یا عہدیدار نہیں بنائیں گے؟ آپ نے میرے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے فرمایا ابو ذر! آپ کمزور ہیں اور یہ عہدہ امانت ہے جو روز قیامت باعث ذلّت اور ندامت ہوگا۔ بچے گا وہی جس نے اس کا حق ادا کیا اور اس کو فرض سمجھا۔“ (عَنْ أَبِیْ مُوْسیٰ (رض) قَالَ دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ (ﷺ) أَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ بَنِیْ عَمِیْقٍ فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَیْنِ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَمِّرْنَا عَلٰی بَعْضِ مَاوَلَّاک اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ وَقَالَ الْآخَرُ مِثْلَ ذٰلِکَ فَقَالَ إِنَّا لَا نُوَلِّیْ عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَہٗ وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ، باب النھی عن طلب الإمارۃ والحرص علیھا] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور بنو عمیق کے دو آدمی نبی کریم (ﷺ) کے پاس حاضر ہوئے ان میں سے ایک نے کہا اللہ کے رسول (ﷺ) ! اللہ تعالیٰ نے جو علاقے آپ کے سپرد کیے ہیں ان پر ہمیں بھی والی بنائیں دوسرے نے بھی عہدے کا مطالبہ کیا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا : ہم یہ عہدے کسی مطالبہ کرنے اور اس کا لالچ رکھنے والے کو نہیں سونپتے۔“ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : (مَنْ دَلَّ عَلٰی خَیْرٍ فَلَہٗ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِہٖ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ، باب فضل إعانۃ الغازی ....] ” جس نے کسی نیکی کے کام کی رہنمائی کی اس کو نیکی کرنے والے کے برابر اجر وثواب ملے گا۔“ مسائل : 1۔ نیکی کی سفارش اور تبلیغ کرنے والے کو مسلسل اور برابر حصہ ملتا رہتا ہے۔ 2۔ برائی کی سفارش اور اشاعت کرنے والا برائی میں برابر کا ذمہ دار ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : نیکی اور برائی کی سفارش کا صلہ : 1۔ نیکی کی سفارش پر اجر۔ (النساء :85) 2۔ برائی کی سفارش پر سزا۔ (النساء :85)