كُلُوا وَتَمَتَّعُوا قَلِيلًا إِنَّكُم مُّجْرِمُونَ
چند دن کھالو اور مزے اڑا لو [٢٦]۔ بلاشبہ تم مجرم ہو
فہم القرآن: (آیت 46 سے 50) ربط کلام : جنتی کے لیے جنت میں حکم ہوگا کہ مزے سے کھاؤ اور پیو ! یہ تمہاری نیکیوں کا صلہ ہے۔ جہنمیوں کے لیے دنیا میں حکم ہے کہ کھا، پی لو مگر یاد رکھو کہ تم حقیقت میں اپنے رب کے مجرم ہو اور تمہارا انجام جہنم ہوگا۔ جنت کی زندگی اور اس کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کی نعمتیں اور زندگی نہایت قلیل اور حقیر ہے۔ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزارتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے جس وجہ سے انہیں یوں مخاطب کیا گیا ہے کہ کھاؤ اور مزے اڑاؤ ! لیکن یاد رکھو ! دنیا کا فائدہ اور کھانا پینا قلیل اور تھوڑی مدت کے لیے ہے بالفاظ دیگر انہیں یہ وارننگ دی گئی ہے کہ کھاؤ اور مزے اڑاؤ ! تمہارے دن تھوڑے ہیں بالآخر تم مجرم کی حیثیت سے پیش کیے جاؤ گے اس لیے کہ تم قولاً اور عملاً قیامت کو جھٹلانے والے ہو۔ ایسے لوگوں کو جب اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کے لیے کہا جاتا ہے تو نہیں جھکتے کیونکہ حقیقت میں ان کا قیامت پر یقین نہیں ہوتا ایسے لوگوں کے لیے قیامت کے دن ویل ہوگا۔ ” وَیْلٌ“ کا دوسرا معنٰی جہنم ہے۔ (الھمزہ :1) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے نازل فرمایا ہے اور بار بار لوگوں کو یاد کروایا ہے کہ اگر تم اپنے رب کی نافرمانی کرو گے تو قیامت کے دن سزا پاؤ گے اس انتباہ کے باوجود دنیا دار لوگ دنیا کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں بالخصوص فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے بعد پھر کس چیز پر ایمان لاؤ گے۔