وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا
اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیائ، صدیقین، شہیدوں اور صالحین [٩٩] کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں
فہم القرآن : (آیت 69 سے 70) ربط کلام : اطاعت رسول کے دنیا میں فوائد اور قیامت کے دن اس کے ثمرات۔ رسول اللہ (ﷺ) کے فیصلہ اور فرمان کو زندگی کے ہر شعبہ میں قطعی طور پر لائقِ اتباع اور باعث نجات سمجھنے والے کو دنیا اور آخرت کے آٹھ انعامات کی خوشخبری دی گئی ہے۔ دنیا میں ہر اعتبار سے بھلائی کا حصول۔ ایمان پر ثابت قدمی کی توفیق۔ عظیم اجر۔ صراط مستقیم کی رہنمائی کے ساتھ اور قیامت کو اللہ تعالیٰ کے عظیم المرتبت انبیاء، صدیق، شہداء اور صالح لوگوں کی رفاقت اور معیّت نصیب ہوگی۔ یہاں چار شخصیات کے حوالے سے درحقیقت چار قسم کے مراتب اور مقام کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جنت میں لوگوں کی انہی چار مراتب کے لحاظ سے درجہ بندی کی جائے۔ آدمی کو شش کرے تو تین مراتب کو کسی نہ کسی حد تک حاصل کرسکتا ہے۔ جن میں صدیق بننا، شہادت کے مرتبہ پر فائز ہونا اور صالح کردار کا حامل بننا ہے۔ جہاں تک نبوت کا مرتبہ اور مقام ہے وہ تو اعمال کے ذریعے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب ہے۔ جس کو چاہے اپنے پیغام کے لیے منتخب فرما لے اور یہ سلسلہ بھی محمد کریم (ﷺ) کی ذات پر اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا اب کوئی شخص یا گروہ یہ دعو ٰی کرے کہ حسن اعمال کی بنیاد پر آدمی منصب نبوت پر فائز یا نبوت میں حصہ دار ہوسکتا ہے یہ سراسر گمراہی ہے۔ اس لیے یہاں رفاقت کا لفظ استعمال فرمایا ہے یعنی اسے نبی کی رفاقت نصیب ہوگی جس سے واضح طور پر اس باطل عقیدہ کی نفی ہوتی ہے کہ کوئی شخص قیامت تک ظلّی یا بروزی نبی نہیں بن سکتایہ بحث سورۃ الاحزاب آیت : ٤٠ میں ختم نبوت کے سلسلہ میں ہوگی۔ صدیق : صدیق سے مراد ایسا شخص جو ہر حال میں سچ بولنے والا‘ سچ پر قائم رہنے والا اور سچ کے لیے ہر چیز قربان کردینے والا ہو، امت میں اس مقام پر سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق (رض) فائز ہوئے۔ جن کے بارے میں رسول محترم (ﷺ) نے اپنی زبان اطہر سے ان کے اعزاز کا اعلان فرمایا۔ باقی لوگ درجہ بدرجہ اس مقام کے حامل ہو سکتے ہیں۔ شہید : ایسی شخصیت کو کہتے ہیں جو دل کی سچائی کے ساتھ اسلام میں داخل ہو اور دین کی سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ اور تیار رہے اور میدان کارزار میں کٹ مرنے والے کو شہید کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے خون جگر سے حق کی گواہی دیتا ہے۔ رسول اکرم (ﷺ) نے شہادت کے کئی مراتب ذکر فرماتے ہوئے مختلف قسم کے لوگوں کو شہداء میں شامل فرمایا ہے۔ امام رازی نے سورۃ آل عمران آیت ١٨ سے استدلال کیا ہے کہ عدل و انصاف کی گواہی دینے والے بھی شہداء میں شمار ہوں گے۔ صالحین : صالح سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر قائم اور خلوص نیت کے ساتھ نبی آخر الزماں (ﷺ) کی اتباع کرنے والا ہو۔ اس طرح امت کے تمام موحّد اور نیک لوگ درجہ بدرجہ صالحیت کے مقام پر فائز اور اپنے عمل کے لحاظ سے جنت میں مقام پائیں گے۔ حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول محترم (ﷺ) مسجد سے باہر نکل رہے تھے دروازے پر آپ کو ایک آدمی ملا اور عرض کرنے لگا اللہ کے نبی! قیامت کب برپا ہوگی؟ آپ نے اس سے فرمایا کہ تو نے قیامت کے لیے کیا تیار کر رکھا ہے؟ عرض کرتا ہے کہ میں نے نفلی کام تو زیادہ نہیں کیے تاہم اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : (فَأَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب، باب المرء مع من أحب] ” تو اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ تو محبت کرتا ہے۔“ یہ مقام اور مراتب محض اعمال کی بنیاد پر نہیں بلکہ سراسر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا صلہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے افکار اور اعمال کو جانتا ہے۔ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ کے فضل کا ذکر کرتے ہوئے آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے اعمال کی بنیاد پر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ایک شخص نے عرض کیا آپ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہوگا؟ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا! ہاں میں بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔[ رواہ البخاری : کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت] مسائل : 1۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والا قیامت کے دن انبیاء، صدیقین، شہداء اور صلحاء کے ساتھ ہوگا۔ 2۔ جنت میں نیک لوگوں کی رفاقت نصیب ہونا اللہ کا بڑا فضل ہوگا۔