يَقُولُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ
اس دن انسان کہے گا کہاں بھاگ کر جاؤں؟
فہم القرآن: (آیت 10 سے 15) ربط کلام : جس قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر ہو رہا ہے اس دن لوگوں کی کیا حالت ہوگی۔ پہلی مرتبہ اسرافیل کے صور پھونکنے پر چاند اور سورج بے نور ہوجائیں گے اور کائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے گا اللہ تعالیٰ اس دن زمین و آسمانوں کو بدل دے گا۔ ( ابراہیم :48) اسرافیل کے دوسری مرتبہ صورپھونکنے پر لوگ اپنے اپنے مدفن سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور ہر فرد محشر کے میدان کی طرف اس طرح جائے گا جس طرح تیر اپنے نشانے پر جاتا ہے۔ (یٰس :51) رب ذوالجلال کی تشریف آوری سے پہلے جنتیوں اور جہنمیوں کو لوگوں کے سامنے لایا جائے گا، ملائکہ جہنمیوں کو بڑی بڑی زنجیروں کے ساتھ کھینچ کر محشر کے میدان میں لاکھڑا کریں گے۔ یہ منظر دیکھ کر قیامت کا انکار کرنے والا اور ہر مجرم کہے گا کہ میں کہیں بھاگ جاؤں لیکن وہ کوئی پناہ گاہ نہیں پائے گا۔ اس دن سب کو اپنے رب کے حضور ہی کھڑا ہونا ہوگا اور انسان نے جو کچھ اپنے آگے بھیجا اور جو پیچھے چھوڑا اسے انسان کے سامنے کردیا جائے گا، یقیناً انسان اپنے آپ پر گواہ ہوگا اور وہ معذرت پر معذرت پیش کرے گا لیکن اس کی کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ ہر مجرم کی بھاگ جانے کی خواہش ہوگی لیکن کوئی بھی اپنا قدم نہیں اٹھا سکے گا۔ اس حالت میں سب کچھ اسے بتایا جائے گا اور اس کا نفس اس کے خلاف گواہی دے گا۔ دنیا میں بے شمار گناہ ایسے ہیں جنہیں انسان بھول جاتا ہے لیکن قیامت کے دن ہر انسان اپنے کیے کو اپنے سامنے پائے گا اور اس کا دل اور اعضاء گواہی دیں گے کہ واقعی ہی اس نے یہ کام کیے ہیں۔ (الملک :11) وہ اس پر بار بار معذرت پیش کرے گا لیکن اس کی کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ یہاں ارشاد فرمایا ہے کہ جو انسان اپنے آگے بھیجتا اور جو اپنے پیچھے چھوڑتا وہ اسے اپنے سامنے پائے گا۔ پیچھے چھوڑنے سے مراد وہ نیکی یا برائی ہے جس کے اچھے یا برے اثرات انسان اپنی موت کے بعد چھوڑجاتا ہے۔ ہم یقیناً ایک دن مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں جو اعمال انہوں نے کیے ہیں وہ ہم لکھتے جا رہے ہیں اور جو آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم لکھ رہے ہیں ہر بات کو ہم نے ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے۔“ (یٰس :12) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَہُ) (رواہ مسلم : بَاب مَا یَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنْ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع کردیے جاتے ہیں مگر تین عمل باقی رہتے ہیں۔ (1) صدقہ جاریہ۔ (2) ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ (3) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرے۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن ہر مجرم کی خواہش ہوگی کہ وہ بھاگ جائے لیکن اس کے لیے کوئی بھی پناہ گاہ نہیں ہوگی۔ 2۔ قیامت کے دن ہر انسان اپنے رب کے حضور کھڑا ہوگا اور جو کچھ اس نے اپنے آگے بھیجا اور جو کچھ اپنے پیچھے چھوڑا اسے اپنے سامنے پائے گا۔ 3۔ قیامت کے دن ہر انسان اپنے کیے کا اعتراف کرے گا۔ 4۔ قیامت کے دن مجرم معذرت پر معذرت کرے گا لیکن اس کی کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن مجرمین کی خواہش : 1۔ مٹی کے ساتھ مٹی ہوجانے کی خواہش۔ (النساء : 42، النباء :40) 2۔ دنیا میں لوٹ کر نیک عمل کرنے کی تمنا۔ (السجدۃ:12) 3۔ ظالم اپنے ہاتھ کاٹتے ہوئے کہے گا، کاش! میں رسول کی اتباع کرتا۔ (الفرقان :27) 4۔ کاش میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ (الفرقان :28) 5۔ جہنم کے داروغہ سے درخواست کرنا۔ (الزخرف :77) 6۔ اپنے مرشدوں اور لیڈروں کو دگنی سزا دینے کا مطالبہ کرنا۔ (الاحزاب :68) 7۔ اللہ تعالیٰ سے مریدوں کا اپنے مرشدوں کو اپنے پاؤں تلے روندنے کا تقاضا کرنا۔ (السجدۃ:29)