إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ
سوائے دائیں ہاتھ [٢٠] والوں کے
فہم القرآن: (آیت 39 سے 48) ربط کلام : ہر انسان اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے اسی بنیاد پر ہی نجات پائے گا یا پکڑا جائے گا۔ اپنے اعمال کی وجہ سے پکڑے جانے والے لوگوں سے جنتی مستثنیٰ ہوں گے انہیں نیک اعمال کے بدلے جنت میں داخلہ دیا جائے گا وہ جنت میں تشریف فرما ہونے کے باوجود گاہے گاہے جہنمیوں سے بات چیت کرسکیں گے تاکہ جہنمیوں کو یہ احساس ہو کہ دنیا میں ہمارے ساتھ رہنے والے لوگ جنہیں ہم حقیر سمجھتے تھے وہ آج جنت میں عیش وعشرت کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ہم ان کے مقابلے میں اذّیت ناک سزائیں پا رہے ہیں۔ جب جنتی ان سے سوال کریں گے کہ تمہیں کون سی چیز جہنم میں لے آئی ہے تو وہ اقرار کریں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھے او ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے اور ہم حق کے خلاف باتیں کرنے والوں میں شامل تھے اور قیامت کے دن کو جھوٹ قرار دیتے تھے۔ اسی حالت میں ہمیں موت آئے گی یہاں تک کہ ہمیں جہنم کے ساتھ واسطہ پڑا ہے جس پر ہم یقین نہیں کرتے تھے اب ہمیں یقین ہوگیا ہے۔ یہاں کلام کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنمی جنتیوں سے درخواست کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری نجات کی سفارش کی جائے۔ لیکن ان کی سفارش کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ جن کی کوئی سفارش نہیں کرسکے گا وہ کافر، مشرک اور منافق ہوں گے یہ لوگ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیں گے جہنمی جن گناہوں کا سب سے پہلے اعتراف کریں گے وہ تین ہیں۔ تارک نماز ہونا : حقوق اللہ میں سب سے پہلے اللہ کا بندے پر حق یہ ہے کہ بندہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرے اور عبادات میں سب سے پہلا فرض نماز ہے۔ (بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ) (رواہ مسلم : کتاب الایمان) ” مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان ترک نماز کا فرق ہے۔“ جہنمی کا اقرارکہ ہم کھانا نہیں کھلاتے تھے : حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد ہیں حقوق العباد میں سر فہرست وہ لوگ ہیں جو زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ انسان کی بنیادی ضروریات میں اس کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ اسے روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے خوراک میسر ہونی چاہئے اگر کوئی غریب دو وقت کی روٹی سے محروم ہے تو اس کے پڑوسی اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس کی خوراک کابندوبست کرے دین اسلام نے اس فرض کو اس حد تک لازم قرار دیتا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَشْبَعُ وَجَارُہُ جَائِعٌ إِلَی جَنْبِہِ) (مَا جَاءَ فِی کَرَاہِیَۃِ إِمْسَاکِ الْفَضْلِ، وَغَیْرُہُ مُحْتَاجٌ إِلَیْہِ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ فرمارہے تھے کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پڑوس میں بھوکا رہے۔“ قیامت کا انکار کرنا : قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن مجید کا تیسرا بڑا مضمون فکر آخرت ہے جو شخص آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور اس کیلئے تیاری نہیں کرتا وہ قیامت کے دن پکڑا جائے گا اور وہاں اس کی کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہوگا۔ مسائل: 1۔ جنتیوں کے سوال کے جواب میں جہنمی اقرار کریں گے کہ ہم بے نماز تھے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے۔ 2۔ جہنمی اقرار کریں گے کہ ہم حق کے مقابلے میں باتیں بنایا کرتے اور جہنم کو جھٹلایا کرتے تھے۔ 3۔ جہنمیوں کے اقرار کرنے کے باوجود ان کی سفارش کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔