وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ
اور اپنے کپڑے پاک صاف [٤] رکھیے
فہم القرآن: (آیت 4 سے 7) ربط کلام : نبوت کے آغاز میں آپ (ﷺ) کو مزید ہدایات۔ دعوت دینے والے کی دعوت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اگر وہ ان باتوں کا خیال نہیں رکھتا تو لوگ اس کی شخصیت اور دعوت سے متاثر ہونے کی بجائے اس سے دور بھاگ جائیں گے اس لیے نبوت کے ابتدائی دور میں آپ (ﷺ) کو درج ذیل ہدایات دی گئیں۔ 1۔ اپنے لباس کو صاف اوراُجلا رکھیں، یادرہے کہ اس زمانے میں لوگ اس شخص کو پارسا سمجھتے تھے جو دنیا کے امور سے الگ تھلگ رہتا اور صاف ستھرا لباس پہننے سے پرہیز کرتا تھا۔ اسلام ترک دنیا اور گندہ رہنے کو انتہائی نا پسند سمجھتا ہے، بے شک دین میں سادگی کو بڑی اہمیت حاصل ہے لیکن انسان کا پاک اور صاف ستھرا رہنا نہایت ضروری ہے۔ پاک صاف رہنے سے آدمی نا صرف دیکھنے میں معزز اور شائستہ نظر آتا ہے بلکہ اس کی طبیعت میں بھی خوشی اور چستی پیدا ہوتی ہے۔ 2۔ جس طرح لباس پاک صاف رکھنے کا حکم ہے اسی طرح حکم ہے کہ انسان کو ہر قسم کی جسمانی اور اخلاقی غلاظت سے بھی پاک ہونا چاہیے۔ ایک آدمی لباس کے اعتبار سے کتنا ہی صاف ستھر ا رہتاہو اگر وہ جسمانی اور اخلاقی لحاظ سے گندہ ہے تو وہ کسی اچھے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا، سب سے بڑی گندگی اخلاق اور اعتقادکی گندگی شرک ہے۔ اس لیے کچھ اہل علم نے ” اَلرُّجْزَ“ سے مراد شرک لیا ہے کیونکہ قرآن مجید نے ایک مقام پر مشرک کو کھلے لفظوں میں گندہ قرار دیا ہے۔ (الحج :30) 3۔ نبی (ﷺ) کو جس معاشرے اور قوم میں مبعوث کیا گیا وہ معاشرہ اور قوم ہر اعتبار سے گمراہی کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ لوگ شرک کو اللہ تعالیٰ کی قربت کاذریعہ سمجھتے اور گمراہی کو دین ابراہیم کا نام دیتے تھے۔ اس معاشرے میں توحید کی دعوت دینا اور لوگوں کو گمراہی سے نکالنا اس طرح تھا جیسے کوئی شخص خود مشکلات کو دعوت دے رہا ہو اس لیے آپ کو صبر کی تلقین کی گئی۔ 4۔ ایک مسلمان کی دوسرے کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ وہ اس کو اللہ کی توحید سمجھائے اور صراط مستقیم کی دعوت دے۔ صراط مستقیم کی طرف لانے والا شخص حقیقت میں دوسرے کا سب سے بڑا محسن ہوتا ہے۔ نبی (ﷺ) رحمت عالم اور خاتم المرسلین بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں۔ آپ نے مکہ والوں کی اصلاح کے لیے دن رات ایک کیا ہوا تھا۔ آپ (ﷺ) انسانیت کے عظیم محسن تھے مگر مکہ والوں نے آپ کے احسان کا برا بدلا دیا جس پر آپ کا رنجیدہ خاطر ہونا اور آپ کے دل میں اس سوچ کا آنا فطری بات تھی کہ میں ان کی خیرخواہی کرتا ہوں اور یہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں۔ اس سوچ سے بچنے کے لیے ابتدا میں ہی آپ کو یہ بات سمجھا دی گئی کہ آپ نے تبلیغ یاکسی کے ساتھ نیکی اس لیے نہیں کرنی کہ وہ آپ کو اس کے بدلے میں کچھ دے اور نہ ہی اپنے کام کا کسی کو احسان جتلانا ہے بلکہ آپ کو کھلے الفاظ میں یہ کہنا ہے۔ ﴿قُلْ مَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِینَ﴾ (ص :86) ” میں اپنے کام پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔“ 5۔ آپ (ﷺ) کو یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ جس راستے پر آپ کو گامزن کیا گیا ہے یہ مصائب کا راستہ ہے آپ کو مصائب برداشت کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔ ” پس اے نبی صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا ہے اور لوگوں کے معاملہ میں جلدی نہ کرو، جس دن یہ لوگ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے، انہیں یوں معلوم ہوگا کہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔“ (الاحقاف :35) مسائل: 1۔ ہر آدمی بالخصوص ایک مبلّغ کو لباس پاک صاف رکھنے کے ساتھ ہر قسم کی ناپاکی سے بچے رہنا چاہیے۔ 2۔ زیادہ طلب کرنے کے لیے کسی پر احسان نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ اپنے رب کے لیے ہر حال میں صبر کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : صبر کی اہمیت اور اس کے فوائد : 1۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف :35) 2۔ نبی (ﷺ) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج :5) 3۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ :153) 4۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات :5) 5۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون :111) 6۔ مسلمان صابر کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد :24) 7۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان :75) 8 صابر بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر :10)