قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَّا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا
آپ ان سے کہہ دیجئے کہ : میں نہیں جانتا کہ جس (عذاب) کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا اس کے لیے میرا پروردگار کوئی لمبی مدت مقرر [٢٣] کردے۔
فہم القرآن: (آیت 25 سے 28) ربط کلام : نبی آخر الزمان (ﷺ) کی تشریف آوری کا مقصد لوگوں کو اللہ کی توحید اور اس کے دین سے آگاہ کرنا تھا آپ نے اہل مکہ کو توحید کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کرنے کی بجائے بغاوت اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور گھمنڈ میں آکر آپ (ﷺ) سے عذاب لانے کا مطالبہ کرنے لگے جس کے جواب میں آپ کو حکم ہوا کہ آپ انہیں فرمائیں عذاب لانا میرے بس کی بات نہیں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ عذاب کب آئے گا البتہ میرا رب چاہے تو اس عذاب کو جلد یا بدیر نازل کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو خوشخبری دینے و الا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ جب آپ برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرتے تو وہ لوگ کفر و شرک چھوڑنے کی بجائے آپ سے مطالبہ کرتے کہ جس عذاب یا قیامت کا ہمیں وعدہ دیا جاتا ہے وہ عذاب اور قیامت کب برپا ہوگی۔ کفار کے اس مطالبے کے جواب میں قرآن مجید نے کئی دلائل دئیے۔ ان میں سے ایک دلیل اور جواب یہ دیا کہ اے نبی ! انہیں بتلائیں کہ میں نہیں جانتا جس دن کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا میرے رب نے اس کی مدت دراز کر رکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی غیب کے معاملات جاننے والا ہے وہ اپنے غیب کے معاملات کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔ البتہ جس بات کو وہ اپنے رسول کے لیے پسند فرمائے صرف اس بات سے رسول کو آگاہ کرتا ہے۔ جب وہ اپنے غیب کے بارے میں اپنے رسول کو وحی کرتا ہے تو اس وحی کی حفاظت کے لیے اس کے آگے پیچھے نگران مقرر کردیتا ہے تاکہ اس کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے کہ ملائکہ نے اپنے رب کے احکام ٹھیک ٹھیک انداز میں اس کے رسول تک پہنچادیئے ہیں۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے اور ہر چیز کا شمار اس کے پاس موجود ہے۔ اس آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ ” اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوجائے۔“ اس کے مفسرین نے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ 1۔ واضح ہوجائے کہ فرشتے نے اللہ کی وحی اس کے نبی تک پہنچادی ہے۔ 2۔ ثابت ہوجائے کہ نبی (ﷺ) نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کی حفاظت کا بندوبست اس لیے فرمایا تاکہ ٹھیک ٹھیک طریقے سے نبی تک اس کا پیغام پہنچ جائے۔ کیا انبیائے کرام (علیہ السلام) غیب جانتے تھے : اس آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب کی باتیں رسول کے سوا کسی پر ظاہر نہیں کرتا اس سے کچھ لوگوں کو مغالطہ ہوا یا انہوں نے جان بوجھ کر یہ مطلب لیا کہ نبی (ﷺ) غیب جانتے ہیں۔ جن لوگوں کو مغالطہ ہوا ان میں تفسیر ضیاء القرآن کے مفسر بھی شامل ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں : ” عَالِمُ الْغَیْبِ“ خبر ہے اور اس کی مبتدا ” ھُوَ“ محذوف ہے یعنی ” ھُوَعَالِمُ الْغَیْبِ“ یہاں مبتدا اور خبر دونوں معرفہ ہیں اس لیے حصر کا معنٰی پایا جائے گا۔ یعنی وہی غیب کو جاننے والا ہے۔ اس سے پتہ چل گیا کہ کوئی انسان خواہ وہ کتنا ذہین و فطین ہو، اس کے علم و عرفان کا قیاس کتنا بلند پایا ہو اس کے درجات کتنے ہی رفیع ہوں وہ غیب نہیں جان سکتا۔ نہ اپنے حواس سے، نہ قوت سے، نہ فراست سے، نہ علم قیاس سے اور نہ عقل سے سوائے اس کے کہ خداوند عالم جو عالم الغیب ہے وہ خود اس کو اس نعمت سے سرفر از فرمادے۔ یہ بھی بتادیا کہ علم غیب کے دروازے ہر ایرے غیرے کے لیے کھلے نہیں بلکہ وہ صرف ان رسولوں کو اس نعمت سے نوازتا ہے جن کو وہ چن لیا کرتا ہے یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مطلب جو اس آیت سے بغیر کسی تکلف کے سمجھ میں آتا ہے۔ (ضیاء القرآن جلد 5، آیت ہذا) بعض حضرات نے رائے ظاہر کی ہے کہ جن علوم غیبیہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو آگاہ کیا ہے وہ فقط علوم شرعیہ ہیں وہ اس طرح رسول کریم (ﷺ) سے علوم تکوینیہ کی نفی کرنا چاہتے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ ان حضرات نے کیا ﴿وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاءَ کُلَّھَا﴾ارشاد الٰہی نہیں پڑھا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو سب کے سب اسماء سکھا دئیے جب آدم (علیہ السلام) کی یہ شان ہے جو زمین میں اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں تو سیدِعالم (ﷺ) جو رحمۃ للعالمین ہیں اور سارے جہانوں میں اللہ تعالیٰ کے خلیفۂ اعظم ہیں ان کے علوم و معارف کا کوئی کیسے اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس لیے سلامتی اسی میں ہے کہ ہم آیات کو وہ معانی نہ پہنائیں جن کو ان کے کلمات قبول نہیں کرتے اور سیدھی اور صاف بات جو قرآن نے فرمائی ہے اس کو صدق دل سے تسلیم کرلیں کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام غیبوں کو جاننے والا ہے اور اپنے علوم غیبیہ پر کسی کو آگاہ نہیں کرتابجز اپنے رسولوں کے ان کو جنتا چاہتا ہے علوم غیبیہ عطا فرماتا ہے۔ یہ جنتا کتنا ہے، اس کو اللہ تعالیٰ جس نے دیا ہے اور اس کا رسول، جس نے لیا ہے وہی بہتر جانتے ہیں یہ حدبندیاں اختراع بندہ ہیں۔ (ضیاء القرآن : جلد 5، ص :397) اگر اس آیت کا یہی معنٰی لیا جائے جو موصوف نے لیا ہے تو پھر درج ذیل آیات کا کیا معنٰی ہے۔ جس میں نبی (ﷺ) کی زبان سے بار بار اعلان کروایا گیا ہے کہ میں غیب نہیں جانتا، حقیقت یہ ہے کہ نبی (ﷺ) غیب نہیں جانتے تھے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) اتنا ہی جانتے تھے جس قدر ان کی طرف وحی کی جاتی تھی۔ اس لیے نبی (ﷺ) سے اس بات کی وضاحت کروائی گئی کہ میں غیب نہیں جانتا اس کے باوجود کوئی شخص الفاظ کے ہیر پھیر سے ثابت کرنا چاہتا ہے کہ نبی (ﷺ) غیب جانتے تھے تو وہ بتلائے کہ قرآن مجید نے نبی (ﷺ) سے پھر کس غیب کی نفی کروائی ہے۔ اس طرح کی تاویل کرنے والا کھلے الفاظ میں رب ذوالجلال کے ارشادات کو جھٹلاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن کے حوالے ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل: 1۔ اللہ ہی غیب جانتا ہے اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے غیب کی کچھ باتیں انبیائے کرام (علیہ السلام) پر وحی فرمائیں۔ 3۔ نزول وحی کے دوران ملائکہ کا ایک دستہ وحی کی حفاظت کیا کرتا تھا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور قدرت کے ساتھ ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے اور اس نے ہر چیز کو شمار کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا : 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فرشتوں کے متعلق علم نہ ہوسکا۔ (ھود :69) 2۔ حضرت لوط (علیہ السلام) فرشتوں کو نہ پہچان سکے۔ (ھود :77) 3۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف :188) 4۔ حضرت نوح نے فرمایا کہ میں غیب نہیں جانتا۔ (ھود :31) 5۔ نبی کریم غیب نہیں جانتے تھے۔ (الانعام :50) 6۔ جنات غیب نہیں جانتے۔ (سبا :14) 7۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام :59) 8۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل :65)