مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا
تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے وقار کا خیال [٦] نہیں رکھتے۔
فہم القرآن: (آیت 13 سے 20) ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کا تعارف ان الفاظ میں کروایا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو جو تبلیغ فرمائی اس کا خلاصہ اس سورت میں ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی تبلیغ کا مرکزی نقطہ اللہ کی توحید کی دعوت دینا اور لوگوں کو شرک سے منع کرنا تھا۔ توحید کی دعوت دیتے ہوئے انہوں نے ایسے دلائل دیئے کہ جن سے انکار کرنا کسی مشرک اور کافر کے بس کی بات نہیں لیکن اس کے با وجود کفار اور مشرکین نے ان کی دعوت کو مسترد کردیا۔ جس پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے وقار اور جلال کا احترام نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کے وقار کا تقاضا ہے کہ تم بتوں اور دیگر چیزوں کی عبادت چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی ساڑھے نو سو سال کی محنت کے باوجود وہ لوگ شرک سے باز نہ آئے۔ یہی ہر دور کے مشرک کا وطیرہ رہا ہے کہ جو احترام اور آداب صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہونے چاہئیں مشرک دوسروں کو دیتے ہیں اور ان کے سامنے جھکتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف حالتوں سے گزار کر اشرف المخلوق بنایا ہے۔ اے لوگو! اللہ تعالیٰ کا وقار اور جلال جاننا چاہتے ہو تو غور کرو! کہ اس نے کس طرح تہہ بہ تہہ سات آسمان پیدا کیے، اسی نے چاند کو منور کیا اور سورج کو چمکتا ہوا بنایا۔ اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا، پھر اسی میں تمہیں لوٹائے گا اور پھر اسی سے تمہیں دوبارہ پیدا کرے گا۔ اسی ذات نے زمین کو فرش بنایا اور پھر زمین میں کشادہ راستے بنائے تاکہ تم ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بڑے سادہ اور ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی قوم کو ” اللہ“ کی توحید اور اس کی بندگی کرنے کی دعوت دی، مگر قوم نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈل لیں اور اپنے چہروں کو ان سے چھپا لیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ کی توحید کے وہ دلائل دیئے جن کی تفصیل کے لیے ہر نبی کی شریعت اور قرآن مجید میں درجنوں دلائل موجود ہیں مگر ہر دور کا مشرک ان دلائل کو ماننے کے باوجود اللہ کی ذات اور اس کی صفات کو اس طرح ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا جس طرح اس نے ماننے کا مطالبہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور بات کو اس کے تقاضوں کے ساتھ نہ ماننے والا اللہ تعالیٰ کے وقار اور احترام کا انکار کرتا ہے۔ حالانکہ اس کے وقار اور جلال کا تقاضا ہے کہ اس کی ذات اور صفات کو ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک سمجھا جائے، اس کی بندگی کا تقاضا ہے کہ صرف اسی کے سامنے جھکا جائے اور اسی کے قانون کی تابع داری کی جائے اور اس کی ذات، صفات میں کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیے گئے باقی انسان آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اس لیے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِیہِ (رض) قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقْرَأُ فِی الْمَغْرِبِ بالطُّورِ فَلَمَّا بَلَغَ ہَذِہِ الآیَۃَ ﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ أَمْ ہُمُ الْخَالِقُونَ أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بَلْ لاَ یُوقِنُونَ أَمْ عِنْدَہُمْ خَزَائِنُ رَبِّکَ أَمْ ہُمُ الْمُسَیْطِرُونَ﴾ کَادَ قَلْبِی أَنْ یَطِیرَ) (رواہ البخاری : باب ﴿وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب﴾) ” حضرت محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) مغرب کی نماز میں سورۃ طور سنی جب آپ اس آیت پر پہنچے۔ ” کیا یہ کسی خالق کے بغیر پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے آپ کے خالق ہیں؟ یا زمین اور آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے، کیا تیرے رب کے خزانے ان کے قبضے میں ہیں؟ یا ان پر ان کا کنٹرول ہے؟“ قریب تھا کہ میرا دل پھٹ جاتا۔“ مسائل: 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی ذات، اس کی صفات اور اس کے ارشادات کا احترام کرنے کا حکم فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے اوپر نیچے سات آسمان پیدا کیے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کو منور کیا اور سورج کو چمکنے والا بنایا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین سے پیدا فرمایا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف مراحل سے گزار کرکامل اور اکمل انسان بنایا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس زمین میں پیدا کیا پھر اس میں لوٹائے گا اور پھر لوگوں کو اسی سے دوبارہ نکال کھڑا کرے گا۔ 7۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے زمین کو فرش بنایا اور اس میں کھلے راستے بنائے۔