فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا
اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگ لو، بلاشبہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 10 سے 12) ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے اس کے حضور توبہ استغفار کرنے کا حکم دیا، اور اس کے دنیا اور آخرت کے فائدے بتلائے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے توحید و رسالت کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ! اس سے ڈرنے کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں سے توبہ کرے یعنی آئندہ گناہ کرنے سے رک جائے۔ قوم نوح کا سب سے بڑا گناہ ” اللہ“ کے ساتھ شرک کرنا تھا، جس سے حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں بار بار منع کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو استغفار کا فائدہ بتلاتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے استغفار کرنے پر تمہارا رب تمہارے سابقہ گناہوں کو معاف فرمادے گا، دنیا میں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورت کے مطابق بارش برسائے گا، تمہیں مال دے گا، بیٹے عطا فرمائے گا اور تمہیں باغ باغیچے دے گا، ان میں نہریں جاری ہوں گی ان باغات سے مراد جنت کے باغات بھی ہیں اور دنیا کے باغات بھی۔ امیر المومنین سیدنا حضرت عمر فاروق (رض) کے زمانے میں بارش ہوئے ایک عرصہ گزر چکا تھا۔ لوگوں نے آپ سے درخواست کی کہ بارش کے لیے دعا کریں۔ امیر المومنین ہاتھ اٹھا کر بارش مانگنے کی بجائے بار بار توبہ استغفار کرتے رہے کسی نے عرض کی کہ آپ نے بارش کی دعا کی ہی نہیں۔ فرمایا آپ نے قرآن نہیں پڑھا سورۃ نوح (علیہ السلام) میں اللہ تعالیٰ نے توبہ استغفار کے بدلے بارش کا وعدہ فرمایا ہے۔ (إِسْتَغفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ یُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا۔) (نوح : 10، 11) ” اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف کرنے والاہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارش بر سائے گا۔“ تاریخ کی نامور شخصیت مشہور ترین تابعی حضرت حسن بصری (رح) جن کی والدہ نبی اکرم (ﷺ) کی زوجہ مکرمہ حضرت ام سلمہ (رض) کی خادمہ تھیں۔ اس لیے حسن بصری (رض) کو بچپن میں حضرت ام سلمہ (رض) کی رضاعت کی سعادت حاصل ہے حسن بصری (رض) بلوغت تک نبی (ﷺ) کے گھر میں حضرت اُمّ سلمہ (رض) کی تربیت میں رہے۔ ان کے پاس یکے بعد دیگرے تین آدمی حاضر ہوئے ایک نے نرینہ اولاد، دوسرے نے غربت وافلاس کی شکایت کی اور تیسرا بارش کی دعا کروانے کے لیے حاضر ہوا۔ آپ نے تینوں حضرات کو کثرت کے ساتھ توبہ استغفار کرنے کا حکم فرمایا۔ بعد ازاں ان کے ایک عزیز نے پوچھا کہ آپ نے مختلف حاجات اور مشکلات کے حل کے لیے صرف ایک ہی وظیفہ بتایا ہے حضرت بصری (رض) نے مندرجہ بالا آیات تلاوت کی۔ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص نے ننانوے قتل کیے پھر وہ توبہ کے لیے کسی راہب کے پاس گیا، اس نے کہا کہ تیری توبہ کسی صورت قبول نہیں ہو سکتی، اس نے طیش میں آکر راہب کو بھی قتل کردیا، اس کے بعد وہ کسی دوسرے عالم دین کے پاس گیا۔ اس نے کہا کہ آپ کی توبہ قبول ہو سکتی ہے (لیکن آپ کو توبہ پر قائم رہنے کے لیے) اپنا علاقہ چھوڑدینا چاہیے وہ اپنے گھر سے نکل کھڑا ہوا، راستے میں اس کو موت نے آلیا، وہ منہ کے بل نیچے گرا، اس صورت حال میں رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں سے ہر کوئی اس کی روح کو اپنی طرف لے جانے کے لیے تکرار کررہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے منزل مقصود والے حصے کو حکم دیا کہ وہ سکڑجائے، جب ملائکہ نے دونوں طرف سے زمین کی پیمائش کی تو وہ اپنی منزل کی جانب صرف ایک بالشت قریب تھا، اس طرح دوزخ کے فرشتے ناکام ہوئے اور وہ اللہ کی جنت میں داخل ہوگیا۔“ (رواہ البخاری : باب التوبۃ والإستعفار) مسائل: 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو استغفار کرنے کا حکم دیا۔ 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بتلایا کہ استغفار کے بدلے اللہ تعالیٰ بروقت بارشیں نازل فرمائے گا۔ 3۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ استغفار کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہیں مال، اولاد اور بیٹے عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن : توبہ و استغفا کا حکم اور اس کے فائدے : 1۔ توبہ کرنا مومن کا شیوہ ہے۔ (التوبہ :112) 2۔ توبہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ:222) 3۔ توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ (البقرۃ:160) 4۔ توبہ کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (القصص :67) 5۔ توبہ کرنے والوں کے لیے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (المؤمن : 7تا9) 6۔ توبہ کرنے والے کے گناہ نیکیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ (الفرقان :70)