أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ
کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس سے ڈرو اور میری اطاعت [٢] کرو
فہم القرآن: (آیت 3 سے 9) ربط کلام : نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بار بار سمجھایا کہ اے میری قوم شرک اور اللہ کی نافرمانی سے تائب ہو کر اللہ کی بندگی کرو اور میری اطاعت کرتے رہو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تمہارے گناہ معاف فرمائے گا اور تمہیں عافیت کی زندگی عطا کرے گا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور ہر قسم کے شرک سے باز آؤ اور میری اطاعت قبول کرو۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تمہیں وقت مقررہ تک مہلت دے گا۔ وقت مقرر سے مراد ہر انسان کی موت ہے اگر اس سے مراد کسی قوم یا برادری اور جماعت کا مقرر وقت سمجھا جائے تو اس سے مراد اس کا وہ دور ہے جس میں وہ دوسری برادری یا قوم پر حکومت کرتی ہے وہ دور خیر وعافیت اور عزت واقبال کے ساتھ گزرتا ہے۔ عبادت کا مفہوم جاننے کے لیے سورۃ الذاریات آیت 56کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں! یاد رکھو! کہ جب اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا وقت یعنی اس کا عذاب آتا ہے تو پھر اس میں تاخیر نہیں کی جاتی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو رات اور دن، صبح اور شام، انفرادی اور اجتماعی، خفیہ اور اعلانیہ سمجھایا مگر وہ لوگ آپ کی دعوت پر غور کرنے کی بجائے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اور اپنے چہروں کو کپڑوں سے چھپا لیا کرتے تھے، وہ کفر و شرک پر اڑ گئے اور انہوں نے تکبر کرنے کی انتہاکردی۔ (عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) التَّائِبُ مِنْ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ) (رواہ ابن ماجۃ : باب ذکر التوبۃ) ” حضرت ابو عبیدہ بن عبداللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا گناہوں سے توبہ کرنے والا اسی طرح ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔“ مسائل: 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کرنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ اللہ سے ڈر کر کفر و شرک چھوڑ دو۔ 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ کے پیغمبر تھے اس لیے انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میری اطاعت کرو۔ 3۔ نوح (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ اللہ کی عبادت کرنے اور میری اطاعت کرنے پر اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کو ٹال دے گا۔ 4۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دن اور رات انفرادی اور اجتماعی اعلانیہ اور خفیہ طور پر دعوت دی مگر انہوں نے اپنے چہروں کو چھپا لیا اور اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ 5۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کے خلاف بڑی سازشیں اور تکبر کا مظاہرہ کیا۔ تفسیر بالقرآن : حضرت نوح (علیہ السلام) کی عظیم اور طویل جدوجہد کی ایک جھلک : 1۔ حضرت نوح نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی اور فرمایا کہ شیاطین کی عبادت نہ کرو۔ (المومنون :23) 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تم سے کچھ نہیں مانگتا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء :109) 3۔ حضرت نوح نے فرمایا میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ (ہود :29) (ھود :35) (ہود :31) (یونس :71)