بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ نوح کا تعارف : یہ سورت اسم بامسمّہ ہے کیونکہ اس میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کے ردّ عمل کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے حضرت نوح (علیہ السلام) کا نام اس سورت میں دو مرتبہ آیا ہے۔ یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کی اٹھائیس آیات ہیں جو دو رکوع پر مشتمل ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کا دورانیہ ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء کرام سے طویل ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو ” اللہ“ کی توحید اور اس کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور سمجھایا کہ اے میری قوم اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگو بے شک وہ توبہ قبول کرنے اور گناہوں کو معاف فرمانے والا ہے۔ توبہ استغفار کے بدلے وہ تمھیں بیٹے دے گا بروقت بارش نازل فرمائے گا اور تمہارے علاقے کو گلشن و گلزار بنا دے گا۔ لیکن قوم نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اپنے چہروں کو چھپا لیا بلکہ انہوں نے کھلے لفظوں میں کہا کہ اے نوح ہم اپنے معبودوں بالخصوص ودّ، یغوث، یعوق، سواع اور نسر کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اگر تو اپنی دعوت میں سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کر دے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں بار بار سمجھایا کہ عذاب کا مطالبہ کرنے کی بجائے شرک سے توبہ کرو اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو، اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف فرما کر اپنی نعمتوں سے تمہیں نوازے گا۔ لیکن قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو کہا کہ اگر آپ اپنی دعوت سے باز نہ آئے تو ہم تجھے سنگسار کردیں گے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس صورت حال میں بے حد مجبور ہو کر فریاد کی کہ اے میرے رب میری قوم نے یکسر طور پر مجھے مسترد کردیا ہے اور جو بھی ان کی نسل سے پیدا ہوگا وہ فاسق اور فاجر ہی پیدا ہوگا۔ اس لیے میری تیرے حضور فریاد ہے کہ اب اس قوم کو تباہ و برباد کر دے اے بار الٰہا جب تیرا عذاب نازل ہو تو مجھے اور میرے والدین اور جو بھی مومن مرد اور عورت میرے گھر میں داخل ہو اسے محفوظ فرما۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بدعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بارشوں کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ پانی پہاڑوں کی چوٹیوں سے اوپر بہنے لگا سورۃ القمر میں ارشاد ہوا کہ ہم نے آسمان کے دروازے کھول دئیے اور جگہ جگہ زمین میں چشمے جاری ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں قوم نوح غرق ہوئی اور اسے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔